ضمیرِ آدمِ خاکی گرفتِ شب میں ہَے- دبستان نو (2016)
حضورؐ، خوف کے اِن بے اماں جزیروں کا
بہت دنوں سے مَیں قیدی ہوں اور تنہا ہوں
زمیں پہ کرب و بلا کے محیط سائے ہیں
لہو کا رقَص ہَے جاری پسِ خیامِ ازل
کسی کے ہاتھ میں ابلیس کا پھریرا ہَے
زمیں پہ بھوک کے شعلے لپکتے رہتے ہیں
زمین آمرِ مطلق کی راجدھانی ہَے
فراتِ عشق پہ پہرے بٹھا دیئے کس نے
یزید وقت کے، ٹوٹے ہوئے ہیں خیموں پر
مری زمین پہ جادوگری کا موسم ہَے
خلافِ عقل کئی فیصلے ہوئے ہیں رقم
نفاذِ عدل کی خواہش کی آخری ہچکی
سنی ہَے میری زمیں کے اداس لوگوں نے
وہ لوگ، ہاتھ قلم ہوں گے جن کے مقتل میں
وہ لوگ، جن کے مقفّل ہیں ہونٹ پہلے ہی
غلاف لپٹا ہوا ہَے قلم پہ اشکوں کا
مری زمیں کے پرندے ابھی سفر میں ہیں
خلش ضمیر کی باقی نہیں رہی، آقاؐ
جبیں پہ عَرقِ ندامت کہاں سے ابھرے گا
اجڑ چکی ہَے بساطِ یقیں کی ہر مسند
حروفِ سبز پہ چھینٹے لہو کے پڑتے ہیں
یہ سرخ رنگ ہَے پہچان میری صدیوں سے
بشر کے سر پہ خدائی کا تاج کس نے رکھا
کسی کو پرچمِ عظمت عطا کریں، آقاؐ
نفادِ عدل کی جرأت نہیں ہَے حاکم میں
کیا ہَے فیصلہ کس نے شہادتوں کے بغیر
حضورؐ، پوچھتے ہیں مجھ سے بچّیوں کے ہجوم
حضورؐ، آپؐ کا ربِّ قدیم، ربِّ عظیم
عطا کرے گا غلاموں کو مغفرت کے پھول
محیط کب سے ہَے میرے وطن کی گلیوں میں
حضورؐ، موسمِ غم اب یہاں سے رخصت ہو
حضورؐ، چاروں طرف اِک جمود طاری ہَے
حقوقِ آدمِ خاکی کو روند کر قاتل
اِدھر بھی قصرِ امامت پہ ہو گیا قابض
عنانِ عشق کسی ہاتھ میں نہیں، آقاؐ
ہوائے صبر نے ردِ عمل کو روکا ہَے
کوئی صدا، کوئی آنسو نہیں ہواؤں میں
ضمیرِ آدمِ خاکی گرفتِ شب میں ہَے
اداس رُت میں دلاسہ نہیں کسی نے دیا
فلک سے حرفِ تسلّی بھی تو نہیں اترا
کسی نے حال بھی پوچھا نہیں، مرے آقاؐ
حضورؐ، زر نے مقیدّ کیا ضمیروں کو
حضورؐ، جبرِ مسلسل کا اس قدر غلبہ
ہوا سنبھل کے دریچوں پہ دستکیں دے گی
فصیلِ شہر کے برجوں سے موند کر آنکھیں،
جلے درختوں کے پیچھے وہ چھپ کے روتی ہَے
اٹھا ہَے سسکیوں اور ہچکیوں کا شور یہاں
کفن فروش قبیلے کہاں سے آ نکلے
حضورؐ، بھوک در و بام پر اُگی ہَے بہت
تلاشِ رزق میں جائے کہاں کہاں اُمّت
کسی نے چیتھڑے بھی جسم پر نہیں دیکھے
حضورؐ، عرضِ تمنا کے پھول لایا ہوں
مرے دکھوں کا مداوا حضورؐ فرمائیں
حضورؐ، خوف کی چادر میں سب کنیزیں ہیں
خدا کا خوف ہَے اعمالِ خیر کی رونق
ہوس پرست گلستاں میں باغباں ٹھہرے
ہوائے جبر کی آنکھوں میں نیند کیا اترے
ہوائے امن تحفّظ کا اب کرے وعدہ
نقابِ شب کو الٹ کر کوئی کرن پھوٹے
سحر کے ہاتھ میں پھولوں کی سبز مالا ہو
مجھے یقین ہَے کامل خدا کی بستی میں
حضورؐ، آپؐ کا طرزِ معاشرت پھر سے
ورق پہ چاند ستارے رقم کرے گا، ضرور
مجھے یقین ہَے کامل، خدا کی بستی میں
حضورؐ، ڈوبے گا سورج کبھی جہالت کا
زمیں سے دَور ندامت کا لوٹ جائے گا
مجھے یقین ہَے کامل، خدا کی بستی میں
حضورؐ، فتنہ و شر کی کمان ٹوٹے گی
فریب و دَجل کی صدیاں بنیں گی رزقِ زمیں
حضورؐ، آپؐ سے یہ التماس کرتا ہوں
قلم کے گرد یہ لپٹے ہوئے کفن اتریں
علوم و دانش و برہان کی کِھلیں کلیاں
حضورؐ، آپؐ سے یہ التماس کرتا ہوں
چراغ اتریں فلک سے مرے بھی آنگن میں
ہوائیں، سبز عمامہ برہنہ سر پہ رکھیں
حضورؐ، آپؐ سے یہ التماس کرتا ہوں
رکھیں ہمیشہ مجھے سائبانِ رحمت میں
عطا و بخشش و راحت کی چاندنی بکھرے
حضورؐ، آپؐ سے یہ التماس کرتا ہوں
شعورِ عدل عطا ہو مرے قبیلے کو
زرِ حقوق پہ قابض ہیں لشکری کب سے
حضورؐ، آپؐ سے یہ التماس کرتا ہوں
خدا کے خوف سے معمور ہو فضا ساری
ضمیرِ مردہ پہ بارش ہو تازیانوں کی
مجھے بھی دھوکہ دیا ہَے حضورؐ اپنوں نے
سیاہ حاشیئے کھینچے ہیں میرے چہرے پر
انڈیل دی ہَے غلاظت بدن کے اندر کی
یہ میرے خون کے پیاسے جو میرے بھائی ہیں
انہیں بھی آبِ خنک کا کوئی کٹورہ دیں
غلیظ گالیاں بکنے سے باز آ جائیں،
حضورؐ، آپؐ ہدایت انہیں بھی فرمائیں
مجھے بھی سرزنش آقاؐ ضرور کیجئے گا
گرفتِ شب سے رہائی نصیب ہو جائے
حضورؐ، وادیٔ صبر و رضا میں رہتا ہوں
ہزار تیر چلائے ہیں شب کے لشکر نے
بدن کو چھید کے رکھا ہَے اُس نے کانٹوں پر
صدا، حضورؐ، یہ آئی ہَے میرے اندر سے
ہزار بار اندھیروں سے لوگ ٹکرائیں
غبارِ خوف کے ٹوٹیں گے دائرے، آخر
حضورؐ، آپؐ انہیں حوصلہ عطا کیجئے
کھڑے ہیں لوگ کئی سال سے اندھیروں میں
افق کے پار سے سورج ضرور نکلے گا
نوید مجھ کو سنائی ہَے جگنوؤں نے ریاضؔ
چراغ بانٹنے نکلے ہیں نَسلِ آدم میں
گلاب اُنؐ کے نقوشِ قدم پہ برسے ہیں
لرزتے پاؤں پہ اپنے کھڑا رہوں کب تک
کسی کے در پہ برہنہ پڑا رہوں کب تک