ورق ورق کے مقدر میں روشنی لکھ دی- دبستان نو (2016)
خدائے لوح و قلم نے خود اپنے ہاتھوں سے
افق افق پہ ستارے بکھیرنے کے بعد
چمن چمن میں بہاروں کو دے کے اذنِ نمود
دھنک کے ہاتھ میں رنگوں کا کھول کر پرچم
چمکتے چاند کی رتھ پر سوار کر کے کرن
گداز و سوز کی مشعل جلا کے آنکھوں میں
چراغِ جاں میں سجا کر خلوص کی کرنیں
مرے خیال میں رکھ کر ادب کی تحریریں
مہک گلاب کی کلیوں کے رکھ کے آنچل میں
زمیں کو پھول کھلانے کا دے کے وصفِ جمیل
ہر ایک سانس میں رکھ کر چراغ مدحت کے
ہر ایک لفظ کو دے کر سخن کا اُجلا پن
کلی کے ہاتھ میں دے کر بہار کا موسم
ہر ایک ساعتِ تہذیب میں صدف رکھ کر
زباں کو دے کے ثنائے حبیبؐ کی شبنم
حروفِ نو کو نبیؐ کا سکھا سکھا کے ادب
صبا کو دے کے مدینے کی رہگذر کا جمال
فلک کو دے کے شعورِ نقوشِ پائے حضورؐ
لُغت کے ہاتھ میں رعنائیِ قلم دے کر
کتابِ عشق میں ہَے مدحتِ نبیؐ لکھ دی
ورق ورق کے مقدّر میں روشنی لکھ دی