نصابِ عدل ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں برسوں سے- دبستان نو (2016)
ہوئے ہیں منحرف جن پر گواہی میری واجب تھی
بہت سی گٹھڑیاں اپنے سروں پر قَرض کی لے کر
وہ در در پر لگاتے پھر رہے ہیں بولیاں اپنی
مَیں تنہا ہوں عدالت کے کٹہرے میں کئی دن سے
کہ ناکردہ گناہوں کا مجھے اقبال کرنا ہَے
مرا یہ جرم ہَے، آقاؐ، کہ زر داروں کی بستی میں
لگا پایا نہیں انبار مَیں لعل و جواھر کے
مجھے اندھی مسافت سے شناسائی نہیں حاصل
منافق ساعتوں کا ہمسفر بننا نہیں آیا
کسی کے خوں پسینے کی کمائی پر نہیں نظریں
تکبّر کا نہیں ہَے شائبہ کردار و سیرت میں
ہوس کے ریگ زاروں سے نہیں ہَے دوستی اپنی
نصابِ عدل ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں برسوں سے
مگر تہذیب کے دامن سے شعلے ہی نکلتے ہیں
مری یہ چشمِ حیرت، شب کا منظر دیکھ پائے گی؟
مجھے تاریک جنگل میں دکھائی کچھ نہیں دیتا
ہدف بنتا ہوں مَیں تضحیک کا اپنوں کی محفل میں
گلی کے سارے بچیّ بھی مری تذلیل کرتے ہیں
کہ میرے زرد ہاتھوں پر نہیں سکّے تشدد کے
کہ مَیں قَصرِ اَنا تعمیر کر پایا نہیں اب تک
کفن نیلام گھر میں بھی نہیں اجداد کا رکھّا
کسی کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا عادت نہیں میری
مرے ہمزاد نے کل شب بھی سلکِ ہمنوائی سے
مرے اندر کے انساں کا گلا ہی گھونٹ ڈالا ہے
کسی نے سر اٹھانے کا ہنر ہی تو نہیں بخشا
مجھے اپنی اکائی کو بچانا ہی نہیں آتا
مجھے اپنوں کی خود بینی بہت بے چین رکھتی ہے
غبارِ خود سری میں ظلم کے کیڑے پنپتے ہیں
مَیں برسوں سے حصارِ بے حسی میں قید ہوں آقاؐ
مرے چاروں طرف بھی بد زبانی کے ہیں انگارے
زباں لکنت زدہ میری، سدا خاموش رہتی ہے
مَیں ان سب کے گریباں پر کہاں تک ہاتھ ڈالوں گا
کہ ناکارہ ہَے میرا ایک بازو میرے بچپن سے
ادھورا جسم لے کر آج بھی زندہ ہوں مَیں، آقاؐ
کسی زر دار کے در پر نہ پھیلایا کبھی دامن
خدا محفوظ رکھّے میری غیرت کے نگینے کو
خدا محتاج رکھّے صرف اپنا ہی مجھے، آقاؐ
خدا سے آپؐ کے قدمَین کا صدقہ ہی مانگا ہے
مرے دامن کو بھرتا ہَے عطا کے سبز پھولوں سے
خدا کا شکر ہے، اُس کے حصارِ عافیت میں ہوں
ضمیر انسان کا ہَے، نیم مردہ جسم کے اندر
سلامت ہیں ابھی کچھ، عظمتِ انساں کی دیواریں
فسردہ ہیں فضائے فتنہ و شر میں مرے بچّے
ہوا، جھوٹی اَنا کی قتل گاہوں سے نہیں لوٹی
مرے آقاؐ، مجھے بھی حوصلہ دیجے، شبِ ماتم
ابھی سفّاک لمحوں کی گرفتِ ناروا میں ہوں
نبی جیؐ، آپؐ کی سنت مجھے جاں سے بھی پیاری ہے
مَیں عفو و در گزر سے کام لیتا ہوں سرِ مقتل
مَیں ہر سازش کو اپنے اس جلے سینے پہ لیتا ہوں
کھڑا ہوں عَصرِ نو کی کربلا میں آج بھی، آقاؐ
غبارِ آمریت میں چراغِ جاں جلاتا ہوں
نبی جیؐ، ملتمس ہوں: آپؐ کی شفقت ہے بے پایاں
مجھے جبرِ مسلسل کے جزیروں پر نہیں رہنا
کہ میں خارش زدہ چہروں سے اب بیزار رہتا ہوں
برہنہ سر پہ رحمت کے گھنے پیڑوں کا سایہ ہو
زمیں پہ کشمکش جاری ہَے تہذیب و تمدن کی
زمیں جھوٹے خداؤں کی ابھی تک دسترس میں ہے
پرستش ان کی جاری ہَے، سرِ مقتل، سرِ مکتب
زمیں پر حشر سا برپا کیا ہَے دستِ قاتل نے
مراکز فتنہ و شر کے ہیں مصروفِ عمل، آقاؐ
یہ جرثومے اَنا کے، رزق ہیں شیطاں کے چیلوں کا
مجھے آقاؐ، یقیں کی دولتِ بیدار بھی دیجے
غبارِ شب سے نکلے ہاتھ اپنے ہی عزیزوں کے
بدن زخموں سے، آقاؐ بھر گیا ہَے قتل گاہوں میں
مجھے زخموں کی عریانی سے کتنا خوف آتا تھا
مجھے زخموں کی عریانی سے کتنا خوف آتا ہے
یہ مسند کے پجاری ہیں، نہیں خوفِ خدا اِن میں
اَنا، خود ساختہ جھوٹے خداؤں کی نہیں مرتی
نمازیں بھی رعونت سے ادا کرتے ہیں مسجد میں
وہ ’’میں‘‘ کی پرورش کرتے ہیں اندر کی غلاظت سے
تکبّر کی ہواؤں میں گھرا ہوں، یا نبیؐ، کب سے
رعونت کی چٹانیں ہر قدم پر راستہ روکیں
رویّے ابنِ آدم کے، حقائق پر نہیں مبنی
ریا و بغض کے سکّے ہی رائج ملکِ زر میں ہیں
فریب و دجل کے آسیب بیٹھے ہیں درختوں پر
کھلے موسم میں آنے کی تمنا دل میں مچلی ہے
نبی جیؐ، آپؐ ہی سردار ہیں اللہ کے نبیوں کے
تصرف آپؐ کو حاصل زمیں کے ہے خزانوں پر
نبی جیؐ، ہَے سرِ اقدس پہ تاجِ رحمت باری
نبی جیؐ آپؐ کا اسمِ گرامی لب پہ جب آئے
چھلک اٹھتے ہیں مدحت کے کٹورے میری سانسوں میں
نکل پڑتے ہیں شہرِ آرزو سے تتلیاں، جگنو
ردائے ابرِ رحمت میں مجھے بھی لیجئے، آقاؐ
کرم کی، اب ردائے محتشم مجھ کو عطا کیجئے
نبی جیؐ، سانس لینے پر بھی پابندی ہَے برسوں سے
اجازت لے کے آمر سے، یہاں فصلیں بھی اُگتی ہیں
ہوا ہَے مسندِ شاھی سے یہ فرمان بھی جاری
مری سوچیں اَنا کے شہر میں داخل نہیں ہوں گی
حضورؐ، اس عہدِ ناپرساں میں جاؤں تو کہاں جاؤں
کہ مَیں اپنی شرافت کے کفن میں بے وسیلہ ہوں
ریا کاری ازل ہی سے جبلّت میں نہیں شامل
قلم میرا حروفِ صدق کی سر پر ردا اوڑھے
قلم کو انقلابِ نور کی روشن کرن لکھّوں
مجھے ناکام ہونا تھا، مجھے نا کام ہونا ہے
مجھے جرمِ ضعیفی کی سزا ملنا ہی تھی آخر
حوادث کی ہوائے بے اماں رہتی ہَے جنگل میں
دریچوں میں چراغِ آرزو رکھنا بھی مشکل ہے
چمن زاروں میں پھر خیمے لگائے ہیں درندوں نے
جنابِ سرورِ عالمؐ! خزاں کی حکمرانی میں
صبا اپنے نشیمن میں ابھی واپس نہیں لوٹی
کُھلا ہَے آئنہ خانے کا در، ہر عکس بکھرا ہے
نبی جیؐ، آپؐ کی رحمت کا ہر شب رتجگا ڈھونڈوں
نبی جیؐ آپؐ کے نقشِ کفِ پا کی تمنّا ہَے
ملیں اخلاقِ حسنہ کی مجھے بھی خوشبوئیں، آقاؐ
مرے افکار کے کھنڈروں میں بھی اب روشنی اترے
مری مٹھی میں بھی جگنو پکاریں یا رسولؐ اللہ
اِسی کیفِ مسلسل میں مری عمرِ رواں گذرے
مَیں سب کچھ بھول جاؤں آپؐ کی مدحت نگاری میں
فقط رشتہ غلامی کا رہے گا آپؐ کے در سے
لہو کے سارے رشتے کچے دھاگوں سے بھی کچے ہیں
نبی جیؐ، مغفرت کے پھول بھی میرے مقدّر میں
مرے تشنہ لبوں پر پھول مہکیں حرفِ مدحت کے
کسی جھوٹے خدا کے سامنے سجدہ نہ کر پاؤں
مجھے طائف کے بازاروں کے پتھر یاد آتے ہیں
مجھے بدبخت لوگوں کی شقاوت بھی نہیں بھولی
مجھے سب یاد ہَے ہجرت کے روز و شب کی سنگینی
ہوا آبِ رواں پر نام لکھیّ کب تلک میرا
مری پہچان کے اوراق پر آقاؐ دھنک اترے
در و دیوار پر لکھّا ہَے طیبہ کی ہواؤں نے
تُو اِن خود ساختہ جھوٹے خداؤں سے بغاوت کر
کھڑا ہوں مَیں درِ اقدس پہ اشکوں کی ردا لے کر
حضورؐ، اس شام بھی حاضر ہوں خاکِ کربلا لے کر