حضورؐ ہاتھ میں خالی ہیں چھاگلیں کب سے- دبستان نو (2016)
حضورؐ، حَشر سا برپا ہَے حَشر سے پہلے
ہوا قلیل ہَے بستی کی تنگ گلیوں میں
ہوا کو اوڑھ کے نکلے کوئی، نہیں ممکن
حضورؐ، سانس بھی مشکل سے لوگ لیتے ہیں
ہوا کی گٹھڑیوں کے قیمتی ذخیروں پر
یزیدیوں کا ہَے پہرہ ہزار برسوں سے
یہ آفتاب بھی اترا ہوا ہَے ممٹی پر
نہیں ہَے آب کا قطرہ بھی آبخوروں میں
زمیں کی گود میں اُگتی ہیں بھوک کی فصلیں
حضورؐ، کھیت ہیں گندم کے، آگ کے دریا
ہماری قتل گہوں کی ہیں رونقیں برحق
حضورؐ، برق بھی گرتی نہیں زمینوں پر
حضورؐ، برق، گھٹاؤں نے چھین لی ہم سے
کہ دن کے وقت بھی تاریکیاں مسلّط ہیں
حضورؐ، ہاتھ میں خالی ہیں چھاگلیں کب سے
فضا میں اڑتے پرندے بھی خود کُشی کر لیں
تمام جھیل کا پانی چرا لیا کس نے
لہو ٹپکتا ہَے وادی کی آبشاروں سے
ہوا کی سبز چنریا میں آگ لپٹی ہے
حضورؐ، گنبدِ خضرا کا موسمِ دلکش
مری زمین کی وسعت میں تا ابد مہکے
مجھے یقین ہَے اک دن بجھے دریچوں میں
ہوائے شہرِ مدینہ دیے جلائے گی
تمام لفظ لکیروں میں قید ہیں، آقاؐ
دعائیں زرد جزیروں میں قید ہیں، آقاؐ