اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ- دبستان نو (2016)
خوں میں تر ارضِ فلسطیں آج پھر ہَے، یا نبیؐ
لمحہ لمحہ خوں ٹپکتا ہَے در و دیوار سے
آسماں سے آگ برسائیں شیاطیں کے ہجوم
یا نبیؐ، بچیّ ہیں اپنے خون میں ڈوبے ہوئے
موت کا ہَے رقص جاری کوچہ و بازار میں
بیٹیوں کے سر سے چھینی جا رہی ہیں چادریں
پھر گرفتِ شب میں ہَے صبحِ بہاراں کا وجود
سسکیاں لینے لگا ہَے پھر چراغِ آرزو
پھر ادھورے لوگ، خیموں میں نظر بندی کے دن
کھو گئے ہیں خواب بچوّں کے شبِ بارود میں
بستیوں کی بستیاں اجڑی ہوئی ہیں یا رسولؐ
بے حسی کا اوڑھ کر کالا کفن زندہ ہیں ہم
خوف کی چادر میں کب سے ہَے قلم لپٹا ہوا
چیتھڑے جسموں کے روزِ عید بھی مقتل میں ہیں
چاند راتیں کوچہ و بازار سے رخصت ہوئیں
اپنی چیخیں بھی سنائی کیوں نہیں دیتی ہمیں
دوسروں سے کیا گلہ اپنے بھی سب خاموش ہیں
ہم منافق ساعتوں کے ہمسفر ٹھہرے، حضورؐ
غیرتِ ملّی کی ہم تدفین سے فارغ ہوئے
جَبر کی شب ہَے در و دیوار سے چمٹی ہوئی
بے گناہی جرم ہَے کمزور انساں کا، حضورؐ
آتش و آہن کی بارش میں زمیں جلنے لگی
ہٹلر و چنگیز زندہ ہو گئے ہیں یا رسولؐ
ہر اُفق پر ہَے ستمبر کے شہیدوں کا لہو
خون پانی کی جگہ دریاؤں میں بہنے لگا
ہر طرف زندہ شہیدوں کے بدن بکھرے ہوئے
ہر طرف معصوم بچوّں کے کھلونے اشکبار
قاتلوں کے ہاتھ روکیں کیا تماشائی، حضورؐ
فتنہ و شر کے محافظ عالمی غنڈے تمام
چیتھڑے انسان کے انصاف کے در پر گریں
آدمیّت کی صدی سے آدمی کی ہَے تلاش
قریۂ الحاد میں کفّار باقی ہیں ابھی
امن کی ہر فاختہ ہَے بے ضمیری کا جواز
یا نبیؐ، اُمّت کے زخموں کا مداوا کیجئے
قاتلوں سے بھی بڑی قاتل سپاہِ مقتدر
پھر غزہ قاتل یہودیت کے ہے اہداف میں
پھول جیسی بچیّوں کے سر برہنہ ہیں، حضورؐ
قاتلوں کے سامنے سر کو جھکا دیتے ہیں ہم
کون لے گا اَن گِنت جنگی جرائم کا حساب
کن اندھیروں کے تسلّط میں ہَے انسانی ضمیر
آپؐ کی اُمّت کا آقاؐ اِس قدر ارزاں لہو،
خون کے چھینٹے پسِ مژگاں رہیں گے کب تلک
عَصرِ نو کی کربلاؤں میں ہزاروں ہیں یزید
ضابطہ اخلاق کا کوئی نہیں پیشِ نظر
یہ خراشیں وقت کے چہرے کی گِن پائے گا کون؟
خوں بہا کس سے طلب جا کر کریں اہلِ قفس؟
کس کے ہاتھوں پر تلاشیں اپنے بچوّں کا لہو؟
عَدل کی کرسی عدالت میں جلا ڈالی گئی
قاتلوں کے ہاتھ میں کب سے قلمداں ہَے، حضورؐ
کتنی سفّاکی کے دن ہیں، کتنی بربادی کے دن
امنِ عالم کی فضا میں اڑ رہی ہیں دھجیاں
آمریّت کی کہانی ختم ہوتی ہی نہیں
لب مقفّل کب سے ہیں اربابِ دانش کے یہاں
اب قضا خود ہی صفِ ماتم بچھاتی ہَے حضورؐ
امنِ عالم کے علم بردار ہیں سوئے ہوئے
لوٹ کر آتے نہیں مقتل سے ماؤں کے چراغ
کون اسرائیل کی یلغار کو روکے گا آج
کب سے اُمّت کے مقدّر پر مسلّط ہَے قضا
پوچھتے پھرتے ہیں اپنے آپ سے پیر و جواں
ٹوٹ جائیں گے غلامانِ محمدؐ کے حصار؟
کن جزیروں کی طرف جانا پڑے گا ہمسفر!
کن اندھیروں میں سمٹ جائے گا صدیوں کا عروج
پانیوں میں کشتیٔ امید کھو بیٹھے ہیں ہم
برف زاروں کا مقدّر دھوپ کی چادر میں ہے
یا خدا! خیبر شکن، مولا علیؓ کا عزم دے
جاں نثاری کی ملے پھر خوئے اصحابِ رسولؐ
بے بسی کے آنسوؤں کو چشمِ تر میں روک دے
اپنے ماضی کے چراغوں کو بچائیں کس طرح
ہم فضائے بدر کے قابل نہیں لیکن حضورؐ
جو بھی ہیں ہم آپؐ کی محبوب اُمّت میں سے ہیں
کب سے ہَے کشمیر پابندِ سلاسل، یا نبیؐ
سسکیوں اور ہچکیوں کی آبرو رکھ لیں، حضورؐ
اُمّتِ مظلوم کی کشتی کنارے سے لگے
عافیت کے پرچموں کی ہر طرف اترے بہار
غیرتِ ملّی ہمارے خون سے تحریر ہو
بزدلی کا پیرہن اترے بدن کی راکھ سے
لوٹ آئے اپنے ماضی کا وہی جاہ و حشم
دامنِ صد چاک میں مہکیں تمناؤں کے پھول
پرچمِ صدیقِ اکبرؓ ہر قبیلے کو ملے
عدلِ فاروقی کے روشن ہوں ہواؤں میں چراغ
ہو ہماری آنکھ میں عثمانؓ کی شرم و حیا
قافلہ سالار ہوں شیر خدا، مولا علیؓ
بے حسی کا ہر سفینہ، یا نبیؐ، غرقاب ہو
روشنی خلدِ مدینہ کی ضمیروں کو ملے
موسمِ شاداب اترے قریۂ افکار میں
آگہی کے ہاتھ پر زندہ ہوں مکتب کے علوم
اُمّتِ سر کش کو دیجے دستِ اقدس کا جمال
خوابِ غفلت سے ہماری آنکھ بھی بیدار ہو
اُمّتِ مرحوم پر نظرِ کرم سرکارؐ ہو