جس کے قدم کی خاک ہے دنیائے ہست بود- زر معتبر (1995)
جِس کے قدم کی خاک ہے دُنیائے ہَست و بُود
قرنوں پہ بھی محیط ہے اُس شخص کا وجود
نورِ یقیں مجھے بھی عطا ہو مرے خُدا،
تشکیک کے کھنڈر میں ہے افکار کی نمود
اِنسان ہے طلسمِ صدا کے حصار میں
خاموش ہے حروفِ صداقت کا بھی سرود
دیوارِ جسم پر اُگے شاداب چاندنی
ٹوٹے شبِ حیات پہ چھایا ہوا جمود
بیٹھا ہے جس کی ڈالیوں پہ طائرِ خیال
اُس سایہ دار پیڑ پہ پڑھتا رہوں درُود
اُڑتی رہیں ثنائے محمدؐ کی تِتلیاں
ذکرِ نبیؐ سے مہکی رہے کشورِ شُہود
میں بال و پر سمیٹ کے گھر سے نکل پڑوں
ہر رہگذر سے مِلتی ہیں اُس شہر کی حدود
مصروف ہونٹ اُس کی ثنا میں رہیں ریاضؔ
لوح و قلم کے وقف ہیں جس کے لئے سجود