اب کہاں میرے مقدر میں مدینے کا سفر- دبستان نو (2016)
(شاعر اپنی جسمانی معذوری کیوجہ سے تصویرِ غم بنا ہوا ہے۔ شہرِ قلم کے آسمان پر افسردگی اور نارسائی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اُسے دکھ ہَے کہ اب وہ خلدِ مدینہ کی پاکیزہ فضاؤں میں سانس لینے سے محروم رہے گا، وہ جانتا ہے کہ شہرِ حضورؐ کا سدا بہار موسم شادابیاں بکھیر رہا ہَے اور بکھیرتا رہے گا۔ رحمتِ حق کا نزول جاری ہَے اور جاری رہے گا۔ حضورؐ کا درِ عطا کُھلا ہے اور کُھلا رہے گا لیکن … لیکن وہ نہیں ہوگا۔ )
اب کہاں وہ حاضری کے دن گئے، یا سیّدیؐ!
اب کہاں در پر مری بے تابیوں کا رتجگا
اب کہاں مجھ سے ادھورے آدمی کی عاجزی
اب کہاں شہرِ خنک کے موسمِ دلکش کی چھَب
اب کہاں شام و سحر اذنِ حضوری کی دعا
اب کہاں اوجِ ثریّا پر مری بزمِ خیال
اب کہاں زخمی پرندے کی اڑانوں کا حساب
اب کہاں طیبہ کے ہر ذرّے کو دل کا چومنا
اب کہاں رم جھم فضاؤں میں اترتی کہکشاں
اب کہاں شب بھر غلامی کی نواؤں کا ہجوم
اب کہاں وہ حیطۂ انوار میں شہرِ قلم
اب کہاں پہروں مواجھے میں مہکتی چاندنی
اب کہاں عرضِ تمنّا کے چمن کِھلتے ہوئے
اب کہاں تصویرِ حیرت آئنوں کے روبرو
اب کہاں ابرِ کرم کی بارشوں میں بھیگنا
اب کہاں قدمَین کی جانب چمن بندی کے دن
اب کہاں وہ گلشنِ طیبہ کی نکہت کا سفر
اب کہاں سرکارؐ کے در پر وہ تصویرِ ادب
اب کہاں طیبہ نگر کے چاند سے شام و سحر
اب کہاں در پر حضوری کی تمنّا کا ظہور
اب کہاں خُلدِ مدینہ کے درختوں کی بہار
اب کہاں صحنِ حرم کی پھول سی آب و ہوا
اب کہاں سنگت ملائک کی درِ سرکارؐ پر
اب کہاں وہ پُر سکوں لمحات کا جمِ غفیر
اب کہاں میرے رفیقانِ سفر کا اضطراب
اب کہاں میرے مقدّر میں مدینے کا سفر
اب کہاں روضے پہ میری التجاؤں کے گلاب
اب کہاں اشکِ مسلسل کی روانی کا سماں
اب کہاں دیوارِ طیبہ کا خنک سایہ نصیب
اب کہاں خُلدِ مدینہ کی ہوا سے رابطہ
اب کہاں اُحدِ مقدّس میں شہیدوں کے مزار
اب کہاں طیبہ کی گلیوں میں تلاشِ نقشِ پا
اب کہاں اصحابِؓ سرکارِؐ مدینہ کے مکاں
اب کہاں میری دعاؤں میں وہ پہلا سا اثر
اب کہاں انفاسِ محبوبِؐ خدا کی نکہتیں
اب کہاں خُلدِ نبیؐ کے موسموں کی دلکشی
اب کہاں اُنؐ کے مواجھے میں مری چشمِ طلب
اب کہاں دیوار و در سے گفتگو کا سلسلہ
اب کہاں آیاتِ ربّانی کی تفسیرِ ادب
اب کہاں علم و ہنر کے وہ مکاتیبِ نظر
اب کہاں انوار کی بارش میں گھر بھیگے ہوئے
اب کہاں در پر مؤدب سائلوں کے قافلے
اب کہاں شہرِ محبت کے مکینوں کا خلوص
اب کہاں میٹھی کھجوریں، اب کہاں زم زم نصیب
اب کہاں وہ ہچکیوں اور سسکیوں کی آبجو
اب کہاں سڑکوں پہ تصویرِ ادب بننا مرا
اب کہاں وہ آسماں پر رقص میں آتی دھنک
اب کہاں ارض و سما کی ساری قندیلوں کا گھر
اب کہاں جھرمٹ ستاروں کے پسِ ریگِ رواں
اب کہاں جود و سخا، عفو و کرم کی بارشیں
اب کہاں وہ گنبدِ خضرا پہ رحمت کا نزول
اب کہاں وہ سرمدی جھونکے ہوائے خُلد کے
اب کہاں طیبہ کے بچوّں کی مقدّس شوخیاں
اب کہاں دیوار و در میں چاند تاروں کا قیام
اب کہاں وہ جالیوں کا منظرِ دلکش ریاضؔ
ہوں عطا، یا مصطفیٰؐ، مجھ کو شفایابی کے پھول
میرے جذباتِ غلامی کا ہو نذرانہ قبول