سرحدِ ادراک پر تفہیم کا موسم کھلے- دبستان نو (2016)
(علم کی جاگیر دیں گے ہم نکمّوں کو حضورؐ
ہم ادھورے لوگ آئے ہیں درِ سرکارؐ پر
ہم ادھورے لوگ لائے ہیں ادھوری حسرتیں)
ہم ادھورے لوگ جاتے بھی کہاں آقا حضورؐ
ہم ادھورے لوگ کیا کرتے پسِ وہم و گماں
ہم ادھورے لوگ کیا لکھتے ورق پر، یا نبیؐ
ہم ادھورے لوگ رہتے ہیں اندھیروں میں حضورؐ
ہم ادھورے لوگ لکھتے ہیں حروفِ التجا
ہم ادھورے لوگ ایندھن ہیں ہوس کی آگ کا
ہم ادھورے لوگ زر داروں کے قیدی ہیں حضورؐ
ہم ادھورے لوگ منگتے آپؐ کی گلیوں کے ہیں
ہم ادھورے لوگ کس جنگل میں کھو جائیں حضورؐ
ہم ادھورے لوگ دیواروں سے ٹکراتے رہے
ہم ادھورے لوگ ہیں جھوٹی اناؤں کے غلام
ہم ادھورے لوگ کیا سمجھیں گے تفسیرِ حیات
ہم ادھورے لوگ ہیں آقاؐ کرم فرمائیے
آپؐ کے در پر پھٹی چادر بچھا دی ہَے حضورؐ
یا محمدؐ مصطفیٰؐ! یا ثروتِ لوح و قلم!
یا امیرِ کارواںؐ! یا ہادیٔؐ نوعِ بشر!
سیّدیؐ یا مرشدیؐ یا مرشدیؐ یا سیّدیؐ!
ہم غلاموں کے ہو حالِ زار پر نظرِ کرم
سرحدِ ادراک پر تفہیم کا موسم کُھلے
مکتبِ اہلِ قلم میں روشنی ہو روشنی
بند دروازوں پہ دستک اپسرائیں دیں حضورؐ
رات کی رانی لٹائے خوشبوئیں شام و سحر
آبرو رکھّے خلش زندہ ضمیروں کی حضورؐ
خیر کی پُروا چلے پھر کوچہ و بازار میں
عَدْل کا پرچم پسِ زنداں کُھلے آقا حضورؐ
آپؐ کے نقشِ قدم کے جل اٹھیں لاکھوں چراغ
آرزوؤں کو مچلنے کا سلیقہ دیجئے
سب کے احوالِ پریشاں کا مداوا کیجئے