کاسہ بکف ہیں آپ کے در پر ازل سے ہم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم- غزل کاسہ بکف (2013)
لپٹا ہوا ہے دامنِ صد چاک میں قلم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم،
یا نبیؐ کرم
آنسو رکیں تو حرفِ تمنا کروں رقم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
جاؤں کدھر؟ ہے آگ کے شعلوں میں آشیاں، ٹوٹا ہوا ہے مجھ پہ
مصائب کا آسماں
سر پر برہنہ سر ہے کھڑی شامِ رنج و غم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
چاروں طرف ہیں بادِ مخالف کے لشکری، ہر ہر افق پہ خیمے لگاتی
ہے تیرگی
الجھے ہی جا رہے ہیں مسائل کے پیچ و خم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
ہر ہر قدم پہ راہزنوں کا ہجوم ہے، مصروف قتلِ عام میں بادِ
سموم ہے
اٹھتے نہیں ہیں جانبِ منزل مرے قدم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
ہے سجدہ ریز آدمی شہرِ نجوم میں، کب سے گھِرا ہوا ہے انا
کے ہجوم میں
شہرِ مفادِ شب میں بھی رکھیئے مرا بھرم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
ناکارہ ایک شخص ہوں روئے زمین پر، مجہول ساعتوں کا ہے دھبہ
جبین پر
صبر و رضا کا وصف مری ذات میں ہے کم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
اپنوں نے دکھ دیئے ہیں مجھے آج بھی حضورؐ، کامل یقیں ہے
آپؐ کریں گے مدد ضرور
کچھ عرض، زیرِ لب میری کرتی ہے چشمِ نم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
زر کی ہوس میں نورِ بصیرت بھی کھو چکے، اپنا ضمیر بیچ کے
کنگال ہو چکے
تخریب کار نکلے رفیقانِ محتشم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
ہر زائرِ نبیؐ سے لپٹ کر کروں سلام، طیبہ کی رہگذار میں
ہو حشر تک قیام
ہے آرزو، بنوں میَں، غبارِ رہِ حرم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
ہر شب چراغِ عفو و عطا ہے ملا ہمیں، سرکارؐ، آپؐ ہی نے غنی
ہے کیا ہمیں
کاسہ بکف ہیں آپؐ کے در پر، ازل سے ہم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم
اشکوں کے سبز پھول مَیں لایا ہوں، ہوں قبول، میرے خدائے
پاک کے اے آخری رسولؐ
لکھے ثناء ریاضؔ بھی، جب تک ہے دم میں دم، آقاؐ کرم، حضورؐ کرم، یا نبیؐ کرم