نورِ یقین و حاصلِ ایماں کہیں جسے- زر معتبر (1995)
نُورِ یقین و حاصلِ قرآں کہیں جسے
قُدرت کا انتخابِ درخشاں کہیں جسے
تصویرِ کائنات کا وہ مرکزی خیال
لوحِ جہاں پہ عظمتِ یزداں کہیں جسے
آدم کی پہلی سانس اُسیؐ سے تھی مستعار
اقلیمِ جاں کا آخری سلطاں کہیں جسے
وہؐ انقلابِ نور کا پیغمبرِ ازل
بیداریٔ حیات کا عنواں کہیں جسے
اِک نقطۂ عُروج ہے بابِ شعور کا
اِک حرفِ معتبر کہ دبستاں کہیں جسے
وہ بامِ آگہی کے دریچوں کی روشنی
غارِ حرا کی شمعِ فروزاں کہیں جسے
ادھڑے ہوئے بدن بھی اُسی کے ہیں منتظر
تشنہ زمیں پہ رحمتِ یزداں کہیں جسے
گلزارِ ہست و بود کا وہ سرمدی گلاب
شامِ ابد بھی صبحِ بہاراں کہیں جیسے
ارض و سما محیط ہیں اُس کے قدوم میں
وہ ایک شخص مصدرِ دوراں کہیں جسے
شاید مرا بھی نام ملے اُس گروہ میں
محشر کے دن غلامِ غلاماں کہیں جسے
احمد رضاؒ کے عشق کی اِک بوند یاخُدا
لکھوں وہ نعت لوگ زرِ جاں کہیں جسے
کاسہ بکف کھڑا ہوں اُسی در پہ میں ریاضؔ
انسانیت کے درد کا درماں کہیں جسے