حمد رب جلیل: یارب! زباں کو ندرتِ گفتار تو نے دی- تاجِ مدینہ (2017)
یارب! زباں کو ندرتِ گفتار تو نے دی
میرے قلم کو جرأتِ اظہار تو نے دی
سچ بولنے کا تو نے ودیعت کیا شعور
بزمِ ثنا میں گرمیِ افکار تو نے دی
تسخیرِ کائنات کا دے کر مجھے ہدف
عزم و عمل کی آہنی دیوار تو نے دی
انسان کے ضمیر میں رکھ کر خلش کا نور
علم و ادب کی ریشمی دستار تو نے دی
شامل ہوئی ہے تاجِ مدینہ میں کائنات
طیبہ نگر کو وسعتِ آثار تو نے دی
رحمت کی خلعتوں سے مسلسل نواز کر
خیرُالبشر ﷺ کی عظمتِ کردار تو نے دی
سورج اُگا کے ہاتھ پہ اقلیمِ نعت کا
یارب! ولائے احمدِ مختار تو نے دی
دل میں بسا کے گنبدِ خضرا کی چاندنی
چشمِ ادب کو حسرتِ دیدار تو نے دی
مجھ کو جمالِ نعت کے دے کر نئے چراغ
صد شکر ہے، غلامیٔ سرکار ﷺ تو نے دی
میرا قلم بھی شکر بجا لائے رات دن
رم جھم، ورق ورق پہ، ضیا بار تو نے دی
آقائے محتشم ﷺ کی رعایا ازل سے ہوں
دامن میں میرے دولتِ بیدار تو نے دی
خوشبو سے میں نے اسمِ محمد ﷺ کیا رقم
میرے سخن کو نکہتِ گلزار تو نے دی
تُو نے ہی دی ہے چاند ستاروں کو روشنی
ہر ہر افق کو چادرِ انوار تُو نے دی
موجوں سے دوستی کا نتیجہ ہے سامنے
ہر چند ناخداؤں کو پتوار تو نے دی
میں نے جہان بھر کی کثافت خرید لی
اس پر بھی مجھ کو چشمِ گنہ گار تو نے دی
توفیقِ کردگار سے اِمشب ریاضؔ، پھر
ویرانیوں کو بوئے چمن زار تو نے دی