ابھی تک کھڑا ہوں حصارِ ادب میں- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

ابھی تک مطافِ حرم کے اجالوں میں سمٹی ہوئی ہیں مری آرزوئیں
ابھی تک کرم کے چراغوں کی رم جھم اندھیروں میں کرنیں بکھیرے ہوئے ہے
ابھی تک میں صحنِ حرم میں کھڑا ہوں
ابھی تک جلالِ خدا کے کئی دائرے مجھ سے لپٹے ہوئے ہیں
ابھی تک مری چشمِ ترملتزم پر حروفِ ثنا کا علم تھام کر رو رہی ہے
ابھی تک میں رکنِ یمانی پہ اپنی دعاؤں کے جھرمٹ میں کھویا ہوا ہوں
ابھی تک حرم کی ہواؤں سے میں ہمکلامی کا حاصل شرف کر رہا ہوں
ابھی تک مری ہچکیوں، سسکیوں، آنسوؤں سے فضائے حرم خود بھی بھیگی ہوئی ہے
ابھی تک مری التجائیں مرادوں کے پھولوں سے مہکی ہوئی ہیں
ابھی تک میں اسود کے بوسے لئے جا رہا ہوں
ابھی تک حطیمِ ادب میں جبیں میری جھک کر مخاطب ہے میرے قلم کے خدا سے
ابھی تک میں انوار و نکہت کے پانی میں ڈوبا ہوا ہوں
ابھی تک میں میزابِ رحمت کے نیچے کھڑا ہوں
ابھی تک مقامِ براہیم پر میرے سجدوں کے انوار بکھرے ہوئے ہیں
ابھی تک مقدر کے روشن ستارے مرے ساتھ مصروفِ حمد و ثنا ہیں
ابھی تک مَیں احرام باندھے فرشتوں کے ہمراہ ہی چل رہا ہوں
ابھی تک مَیں زم زم کے پیراہنوں میں نقوشِ قدم آپ ﷺ کے ڈھونڈتا ہوں
ابھی تک مَیں مکے کی سڑکوں پہ تنہا کھڑا ہوں
ابھی تک مَیں آقائے رحمت کی جائے ولادت کی مٹی کو سرمہ بنائے ہوئے ہوں
ابھی تک مدینے سے آتی ہواؤں سے سرگوشیاں کر رہا ہوں
ابھی تک مدینے کی ٹھنڈی سڑک پر مَیں محوِ سفر ہوں
ابھی تک مرے دونوں ہاتھوں پہ مدحت کے کتنے دیے جل رہے ہیں
ابھی تک قلم رقص میں ہے مرا بھی
ابھی تک خوشی کے وہ آنسو مری روح میں موجزن ہیں
ابھی تک مجھے یاد ہے جب نظر میری سجدے سے اٹھتی نہیں تھی
ابھی تک کھڑا ہوں میں قدموں کی جانب
ابھی تک مجھے اُن ﷺ کے قدموں کی خیرات ہی مل رہی ہے
ابھی تک میں آقا ﷺ کے روضے کی جالی کو تھامے ہوئے ہوں
ابھی تک بہارِ مدینہ کے ہاتھوں پہ مَیں پھول مدحت کے ہی رکھ رہا ہوں
ابھی تک مرے دل کی ہر ایک دھڑکن سلامی کی خاطر جھکی جارہی ہے
ابھی تک درودوں کے گجرے اٹھائے حضوری کی میں سیپیاں چن رہا ہوں
ابھی تک مرے سامنے روضۂ پاک کی جالیوں کا ہے منظر
ابھی تک مواجھے کے میں لب کشا موسموں سے مضامینِ نعتِ نبی ﷺ سن رہا ہوں
ابھی تک میں اُن ﷺ کے کرم کی تجلی سے لپٹا ہوا ہوں
ابھی تک عطاؤں کی بارش میں بھیگے ہوئے دن ہیں میرے
ابھی تک احد کے مناظر مَیں چشم اِدب میں سجائے ہوئے ہوں
ابھی تک مری چشمِ پُرنم مدینے کی گلیوں میں کھوئی ہوئی ہے
ابھی تک ستونوں کے پیچھے مَیں چھپ کر
سحابِ کرم کو
اترتے ہوئے تک رہا ہوں
ابھی تک کھڑا ہوں حصارِ ادب میں
ابھی تک حضوری کے لمحات کی آرزو میں
مری زندگی اُن ﷺ کے در پر پڑی ہے
ابھی تک مرے گھر کے آنگن میں خوشبو مدینے کے موسم کی پھیلی ہوئی ہے
ابھی تک یہاں
شہرِ اقبال میں بھی
مدینے کی ٹھنڈی ہوا آرہی ہے