جن کو ابھی ہے جانا سرکار کے نگر میں- نصابِ غلامی (2019)
جن کو ابھی ہے جانا سرکار ﷺ کے نگر میں
وہ پھول سی ہوائیں رہتی ہیں میرے گھر میں
طیبہ کے قافلوں کو اعزاز یہ ملا ہے
سمٹا ہوا ہے سورج رستے کے ہر شجر میں
خوشبو کا ہاتھ تھاموں، پھولوں کے ہاتھ ہو لُوں
زندہ ہے دل کی دنیا اُس شہرِ منتظر میں
کمزور و ناتواں ہوں، تن میں لہو نہیں ہے
بس شوق حاضری کا اڑتا ہے بال و پر میں
اوراقِ جان و دل پر اتری ہیں کہکشائیں
طیبہ کی چاندنی ہے ہر حرفِ معتبر میں
آقا ﷺ کے در پہ جا کے اکثر یہ سوچتا ہوں
کتنے دیے سمیٹوں دامانِ مختصر میں
اشکوں کا اک سمندر سجدے گذارتا ہے
کیسی یہ روشنی ہے محرابِ چشمِ تر میں
ہر وقت سامنے ہے روضہ مرے نبی ﷺ کا
شہرِ حضور ﷺ کے ہُوں ہر وقت مَیں سفر میں
ہر لفظ سر جھکائے در پر کھڑا ہے کب سے
ڈوبا ہوا قلم ہے رحمت کے آبِ زر میں
نیلام گھر میں اس نے اپنی خودی ہے رکھ دی
کیا ڈھونڈتی ہے امت اب خاک در بدر میں
کچھ کچھ سلگ رہی ہیں چنگاریاں ابھی تک
ذوقِ نمو ہے باقی ہر شاخِ بے ثمر میں
ہُوں مَیں ریاضِؔ عاجز، اوقات میری کیا ہے
تنہا کھڑا ہوں کب سے طیبہ کی رہگذر میں