ذکر کرتا ہی رہوں گا سیدِ ابرار کا- نصابِ غلامی (2019)
ذکر کرتا ہی رہوں گا سیّدِ ابرار ﷺ کا
آفتابِ نور ہیں وہ ﷺ عظمتِ کردار کا
میرے اشکوں کی تپش ہر لفظ میں مذکور ہے
نام ہے اُن ﷺ کا ہی موجب گرمیٔ افکار کا
کھڑکیوں پر دستکیں دینے کا موسم ہے کہاں
قفل اِمشب ٹوٹ جائے گا درِ اظہار کا
گونجتے رہتے ہیں نغماتِ ثنا شام و سحر
کیا مقدّر ہے مرے گھر کے در و دیوار کا
چند لمحے قبل گذری تھی مدینے کی ہوا
رنگ ہی بدلا ہوا ہے کوچہ و بازار کا
مطمئن شب کے کفن میں تشنہ مٹی بھی رہے
میِنہ برستا ہی رہے گا آپ ﷺ کے انوار کا
کس طرف افلاس کی گٹھڑی اٹھا کر جائے گا
کون ہے آقا ﷺ سوائے آپ ﷺ کے، نادار کا
نسلِ آدم قتل گاہوں میں کھڑی ہے ہر طرف
خوں میں تر چہرہ ہے آقا ﷺ ، آج کے اخبار کا
کب تلک شب کی گرفتِ ناروا میں روشنی
کب تلک موسم رہے گا جُبّہ و دستار کا
اجتماعی خودکُشی کا ہے دہانہ سامنے
رخ کدھر کو ہو گیا ہے قافلہ سالار کا
پرچمِ ارضِ وطن پر اے مرے اچھے خدا
چاند تارا جگمگائے دین کی اقدار کا
باادب ہے میری سوچوں کے پرندے کا سفر
در کھلا رہتا ہے میرے دیدۂ بیدار کا
یا رسول اللہ ﷺ ، ہماری رہنمائی کیجئے
جو سفر درپیش ہے، ہے وادیٔ پُرخار کا
منظرِ دلکش ہے کیا، چشمِ تخیل میں ریاضؔ
والیٔ کونین ﷺ کے صد محتشم دربار کا