زرِ سخن بھی نہیں، مصرعۂ ہنر بھی نہیں - مطاف نعت (2013)
یہ اوائل 1970sکی بات ہے جب میں پاک فضائیہ کوہاٹ بیس پر تعینات تھا، وہاں محترم دوست فیروز ناطق سے ملاقات ہوئی۔ بہت اچھی غزل کہتے تھے اور اکثر ادبی مجلّوں میں چَھپتے تھے۔ میری ان کے ساتھ دوستی شعری ذوق کی وجہ سے تھی۔ میں زیادہ تو نہیں لکھتا تھا مگر گھر میں ادبی ماحول اور کالج میں اساتذہ کی تربیت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے اچھے شعر کی پہچان ضرور تھی۔ بالخصوص جناب اصغر سودائی اور جناب حفیظ صدیقی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ کبھی مشاعرہ ہوتا تو ضرور لکھ لیتا، جہاں عزت افزائی کی بدولت ذوق بڑھتا رہتا۔ فیروز ناطق بہت لکھتے تھے اور اچھا لکھتے تھے اور انہی کے ساتھ جناب ایوب صابر کے ساتھ میونسپل لائیبریری کوہاٹ میں نشستیں ہونے لگیں اور پھر یہ دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اس زمانے میں جناب حامد سروش بھی کوہاٹ میں تھے اور جناب رشید قیصرانی کا تبادلہ بھی کوہاٹ ہو گیا تھا۔ جناب عزیز اختر وارثی بھی وہیں آ جاتے اور یوں کوہاٹ میں اردو شاعری پر بہار آنے لگی اور میرے شعری ذوق کی پرورش بھی ہونے لگی۔
یہ محفلیں اس وقت دوچند ہو گئیں جب جناب مظفر علی سیّد بھی کوہاٹ تعینات ہو گئے۔ پھر یہ نشستیں سیّد صاحب کے ہاں ہونے لگیں مگر اس میں بالعموم مَیں اور جناب فیروز ناطق ہی شریک ہوتے۔ ان کے ساتھ بیٹھ جاتے تو اٹھنا بھول جاتے، رات سہ پہر کہیں نشست برخاست ہوتی۔ وہ ایک بہتا ہوا سمندر تھے، سب کو ساتھ بہا لے جاتے۔ انگریزی اور اردو ادب کی تاریخ، دونوں کا تقابلی جائزہ اور عصرِ حاضر کی ابحاث پر ان کی نگاہ بہت گہری تھی۔ ہم اپنے اپنے سوالات اٹھاتے رہتے اور جنابِ سیّد اپنا وسیع مطالعہ چائے میں گھول گھول کر ہمارے اندر انڈیلتے رہتے۔ ان کے پاس بیٹھ کر اس زمانے کے صفِ اول کے ادیب اور شعرا کے ان کے ساتھ روابط اور کسبِ فیض کا پتہ بھی چلتا۔ یقیناً جناب سیّد انتہائی معتبر اور محترم ادبی مقام کے مالک تھے، ان کے تبحر علمی کا احاطہ بہت مشکل ہے۔ ہم دو نوجوانوں کی تو لاٹری نکلی ہوئی تھی کہ وہ خود ہمیں بلا لیا کرتے اور گھنٹوں اپنے پاس بٹھا کر ہمیں اردو ادب کی جنت کی سیر پر لے جایا کرتے۔ جب کوہاٹ سے میرا تبادلہ ہوا تو سیّد صاحب کی صحبت سے محرومی کا مجھے بہت کلک تھا، یقیناً وہ بھی ناخوش تھے۔ میری غزل کو بہت سراہا کرتے تھے جس کا علم مجھے ان سینئر افسران کی زبانی ہوتا جن کے ساتھ وہ میرے بارے میں اظہار خیال کیا کرتے۔ کوہاٹ سے میرے کیڈٹ کالج پٹارو تبادلہ کے بعد یہ سب قصۂ پارینہ ہو گیا۔ ایک جنت تھی جو چھن گئی۔ زندگی میں پھر ایسی صحبت اور ادبی نشستیں کبھی میسر نہ آئیں۔ اور وہی زندگی بھر کے لئے کام کر گئیں۔ اوائل 1980s میرا تبادلہ پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں ہوا تو کچھ رابطے بحال ہوئے، چند مشاعروں میں شرکت کا اتفاق ہوا جہاں نئے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور جناب سیّد کیساتھ بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، مگر کوہاٹ جیسی ادبی محفلیںخواب ہی رہیں۔
سروس کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی گئیں اور تبادلوں کی وجہ سے وہ محفلیں پھر کبھی میسر نہ آ سکیں۔ اس دوران فیروز ناطق تو بہت لکھتے رہے مگر مجھ پر جمود طاری رہا اور کچھ نہ لکھ سکا، حتیٰ کہ پاک فضائیہ سے 1998میں ریٹائر ہو گیا۔
1999میں جب منہاج القرآن انٹرنیشنل کے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ذمہ داری سنبھالی تو یہاں میری ملاقات جناب ریاض حسین چودھری سے ہوئی جو انسٹیٹیوٹ کے شعبہ ادبیات کے صدر تھے۔ ملاقات کیا تھی، ذوقِ شعر کو مہمیز لگ گئی۔ ادھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی نجی محافلِ نعت میں شرکت کا موقعہ ملا تو جیسے بھانبڑ مچ گیا۔ جو لوگ ڈاکٹر صاحب میں عیب نکالتے ہیں لاعلمی کی وجہ سے اور بے جا اپنے ساتھ ہی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں دراصل کچھ جانتے نہیں، حسد اور بغض کیوجہ سے انسان ہمیشہ سچائی سے دور رہا ہے۔ انسان مٹی سے بنا ہے تو ڈاکٹر صاحب مٹی کو سونا بنانے والے ہیں۔ یہ وہ ہے جو مَیں نے دیکھا ہے۔ ان کی شخصیت کی جہتوں کا احاطہ کرنے بیٹھیں تو دفاتر کھل جائیں، اس مختصر تحریر میں ان کے بارے میں کچھ لکھنا! کیا معنی؟ یہاں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے بھوبھل میں دبی چنگاری کو صرف ایک نگاہِ سخا سے شعلۂ جواّلہ بنا دیا۔ اب تڑپ بھی تھی، ذوق بھی تھا اور صحبت بھی لیکن جب اپنے اندر جھانکتا تو نعت لکھنے کا یارا نہ تھا، میں اپنی اوقات کبھی نہیں بھولتا۔
جناب ریاض حسین چودھری کی نعت پڑھتا، ان کے ساتھ بیٹھتا، انہیں سنتا اور اندر ہی اندر ایک حسرت دبوچ لیتی۔ سوچتا کہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی شان میں نعت کیسے لکھوں۔ قلم اٹھاتا تو عجز و ندامت سے کانپ جاتا۔ جنابِ ریاض بہت حوصلہ دلاتے اور کچھ لکھنے کے لئے آمادہ کرتے رہتے مگر سب بے سود ثابت ہوتا۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے مجھے جو ذمہ داریاں تفویض کی ہوئی تھیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تو 24گھنٹے کا دن چھوٹا تھا۔ شاعری کے لئے وقت کہاں؟ تب تو ریاض صاحب سے بھی رابطہ کم رہنے لگا۔ پھر ایک روز چشمِ تر میں اتنا بھیگا کہ یوں لکھ دیا:
ضیاع عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیزؔ
درِ حبیب ﷺ سے لے لو حیاتِ نو اب بھی
اور پھر حیاتِ نو کی بھیک مانگنے سرکارِ دوعالم ﷺ کے درِ اقدس پر جا پہنچا اور تسکینِ قلب کا ساماں کیا۔ پھر میں کبھی کبھی نعت لکھنے لگا۔ بعض اوقات طبیعت موزوں ہوتی مگر مَیں طے شدہ ترجیحات میں ردوبدل کبھی نہیں کرتا۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں کو ہمیشہ اولیت دیتا ہوں۔ طبیعت موزوں ہوتی تو گنگنا لیتا مگر شعر گوئی کے لئیایک لمحہ بھی میسر نہ تھا۔ اس طرح پچھلے 14برسوں میں تھوڑا تھوڑا جو کبھی لکھا مجلہ منہاج القرآن میں چھپتا رہا اور اب ایک مختصر سا مجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ چونکہ تسلسل سے کچھ نہیں لکھا اس لئے آپ کو کہیں قدیم اور کہیں جدید نعت کے رنگوں کاا متزاج ملے گا اور پیرایۂ اظہار میں بھی اتار چڑھاؤ نظر آئے گا۔ میں نے سب کچھ یکجا کر دیا ہے۔
اس دوران یہ بھی ہوا کہ میں تو عبدالعزیز تھا اور ہوں۔ یہی میرا نام ہے اور میں ہمیشہ اپنایہی نام استعمال کرتا ہوں اور کوئی سابقہ لاحقہ استعمال نہیں کرتا، مگر شیخ الاسلام مدظلہ نے فرمایا کہ اب آپ عبدالعزیز نہیں شیخ عبدا لعزیز دباغ ہیں۔ مَیں دیر تک اپنی اس عرضداشت پر مصر رہا اور اب بھی ہوںکہ مَیں عبد العزیز ہی ہوں مگر اکثر جگہوں پر وہ مجھے شیخ عبدا لعزیز دباغ ہی لکھتے، حتیٰ کہ کئی ڈرافٹ جو انہیں بیرون ملک اپنے نام سے روانہ کرتا وہ ان پر شیخ دباغ لکھ کر واپس بھیج دیتے۔ یوں وقت گذرتا گیا اور اس نسبت کی وجہ سے میں جو بوجھ محسوس کرتا تھا اس کا احساس بتدریج مدھم ہوتا گیا۔ تاہم مَیں عبد العزیز ہی ہوں اور لکھنے میں شیخ الاسلام مدظلہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے شیخ عبدا لعزیز دباغ لکھتا ہوں۔
کہتے ہیں شاعری میں دسترس کے لئے شعرا کا مطالعہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق نعتیہ کلام پر بھی ہوتا ہے۔ نعتیہ کلام کا میرا کوئی باقاعدہ مطالعہ نہیں رہا، کبھی کبھار کچھ مل گیا تو پڑھ لیا۔ یوں معیاری نعت میں ہونے والے شعری تجربوں کے حوالے سے میری معلومات زیادہ نہیں تھیں۔ میں نے جو نعت لکھی ہے اس میں فنی نقطۂ نظر سے اور اردو زبان کی صحت اور تکنیکی باریکیوں کے حوالے سے میں نے کیا کیا ہے یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ احباب کی طرف سے حوصلہ افزائی میرا سرمایہ ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ کا ذوقِ شعر کسے معلوم نہیں لیکن شائد انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ مَیں شعر کہہ لیتا ہوں اور میں نے کوئی نعتیہ کلام بھی لکھا ہے۔ نہ میں انہیں یہ دکھانے کی جسارت کر سکا ہوں۔ جناب ریاض حسین چودھری اردو نعت کا ایک بڑا نام ہیں۔ فنِ نعت نگاری میں انہوں نے جو تجربے کئے ہیں اس حوالے سے وہ مقامِ امامت پر فائز ہیں کیونکہ یہ تجربات جناب حفیظ تائب کے حصے میں بھی نہیں آئے۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میرے بہت قریبی دوست ہیں اس لئے تعریف کرتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے شعری تجربوں سے مجھے کامل آگاہی ہے۔
اس لحاظ سے یہ میری خوش بختی ہے اور اس پر مجھے فخر ہے کہ جناب ریاض حسین چودھری جیسے پختہ، استادِ فن اور صفِ اول کے نعت نگار سے مجھے قربت حاصل ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے۔ جناب ضیاء نیر مجھے اکثر چوپال میں ہفتہ وار منعقدہ مشاعروں میں شرکت پر مجبور کیا کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے چار نعتیں لکھ کر ان کے حوالے کر دیں اور گذارش کی کہ میری طرف سے چارمشاعرے خود پڑھ دیں۔ چنانچہ ایک دو مرتبہ تو مجھے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور باقی نعتیں انہوں نے خود ہی جا کر پڑھیں، میری مصروفیات ہی ایسی ہیں۔ یہ باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ واضح کرسکوں کہ تخلیقی کاوشوں کے لئے محرکات کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور مطالعہ اور ماحول کی وجہ سے طبع موزوں از خود تخلیقی تجربے پر کیسے تیار ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کی بات اور ہے۔ میں نے جنابِ ریاض کو مسلسل لکھتے دیکھا ہے۔ وہ لکھتے چلے جاتے ہیں، کہیں نہیں رکتے جبکہ ان کے کلام میں معیار، تازگی اور تنوع میں کہیں فرق نہیں آتا۔ ابھی ان کا آٹھواں نعتیہ مجموعہ ’غزل کاسہ بکف‘ چھپا ہے جس میں انہوں نے ھشت نعتیہ، چہار نعتیہ، سہ نعتیہ اوردو نعتیہ تخلیق کی ہیں۔ ہشت نعتیہ تو ایک ایک پچاس پچاس اشعار پر مشتمل ہے مگر کیا مجال کہ کوئی شعر اس معیارِ فن کے مطابق نہ ہو جو جنابِ ریاض کی پہچان ہے۔ ایسے لوگوں کی صحبت میں ہم جیسوں کو تحریک ملتی ہے اور ہم کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں۔ یہ ان کی صحبت کا فیض ہے۔
’مطافِ نعت‘ کیا ہے اور کیا نہیں، یہ مَیں کیسے جان سکتا ہوں! بارگاہِ رسالت ﷺ میں ایک حقیر غلام کی طرف سے عجز و انکساری اور ندامت و شرمساری سے پھوٹنے والی وہ ٹوٹی پھوٹی کاوش ہے جو ھدیۃً اس لئے لکھی گئی ہے کہ درِ حبیب ﷺ سے نسبت مل جائے، قربت کا کوئی طریقہ بن جائے، پھر عرض کروں، یا رسول اللہ! اپنے ساتھ زیادتیوں کا انبار لگانے والا غلام حاضر ہے، توبہ کی قبولیت کے لئے آپ ﷺ کی رحمت کا طلبگار ہے، رحمت فرما دیجئے کہ رب کریم توبہ قبول فرما لیں اور میں عجزوتشکر میں لپٹا بارگاہِ ایزدی میں سجدۂ طویل کی سعادت حاصل کرتے اس کے روبرو پیش ہو جاؤں۔ پھر وہ مالک مجھے اپنی بخشش سے نواز دے۔ قبر ہو یا روزِ محشر، نبیٔ رحمت کی نگاہِ کرم مل جائے اور کام بن جائے۔ حصولِ رضائے نبی ﷺ کا یہی غم میری زندگی ہے اور مطافِ نعت اس غم کی حسرتِ اظہار کا نشان۔
لاہور شیخ عبدالعزیز دباّغ
31 دسمبر 2012