دنیا کی آرزو ہے نہ نمود کی طلب ہے- مطاف نعت (2013)
دنیا کی آرزو ہے نہ نمود کی طلب ہے
مرا نام ہے ملامت، شرمندگی نسب ہے
مجھے خواہشوں نے گھیرا، مجھے لذتوں نے مارا
میرا طُربیہ عجب ہے، میرا اَلَمیہ عجب ہے
مرا خوف گنہگاری، میرا چین آہ و زاری
مری جستجو مدینہ، مری آرزو ادب ہے
مرا غم تری رضا ہے، یہی غم مری خوشی ہے
اسی غم سے دن ہے روشن تابندہ میری شب ہے
جاں سے گزر کے ہوگی تری دید تک رسائی
یونہی بے قرار جینا بھی قرار کا سبب ہے
کچھ اہلِ دید ہیں جو دیدار کررہے ہیں
ہم انتظار میں ہیں دیدار کی طلب ہے
ہوں حشر کا مسافر اور زادِ رہ نہیں ہے
نگہِ کرم ہو آقا یہ غلام جاں بلب ہے
درِ مصطفی پہ جا کر مَیں نے عزیزؔ دیکھا
محوِ ثنا دو عالم، محوِ درود رب ہے