حجاب اٹھا نہیں نگہِ یقیں کی آزمایش ہے- مطاف نعت (2013)
حجاب اٹھا نہیں نگہِ یقیں کی آزمایش ہے
بڑی افتاد ہے قلبِ حزیں کی آزمایش ہے
سرِ مژگاں لٹی آخر متاعِ شرمساری بھی
گری ہے سجدۂِ غم میں، جبیں کی آزمایش ہے
اسے دیکھا ہے، لیکن جلوۂ مستور کی صورت
نظر لاچار ہے، ذوقِ یقیں کی آزمایش ہے
فنا کے پار پھیلی ہے بقا کی جنت ماویٰ
فنا کی رات فکرِ نکتہ چیں کی آزمایش ہے
سرورِ بے خودی ملتا ہے اس کی ہم نشینی میں
حضوری میں ولیکن ہم نشیں کی آزمایش ہے
قیامِ چند ساعت ہے فریبِ جاودانی بھی
مکاں کی دیدہ زیبی میں مکیں کی آزمایش ہے
اسی کی یاد سے زندہ ہے لو اس کی عزیزؔ اب تک
شبِ ظلمت چراغِ آخریں کی آزمایش ہے