دیدۂ بیدار- خون رگ جاں

کیا ذکر کروں حسنِ گلستاں کا خدایا کیا ذکر کروں دست و گریباں کا خدایا
کیا ذکر کروں حضرتِ انساں کا خدایا کیا ذکر کروں دین کا ایماں کا خدایا
جذبات کی مشعل مرے سینے میں جلی ہے
ہونٹوں پہ کبھی آکے بھی فریاد رکی ہے
تابندہ سہی عظمتِ رفتہ کے نظارے ماضی کی جبیں پر بھی چمکتے ہیں ستارے
مانا سرِ افلاک بھی چرچے تھے ہمارے لیکن کوئی جیتا نہیں یادوں کے سہارے
جوہر وہ دکھاؤ تو کوئی بات بنے گی
ورنہ یہ کہاوت کی کہاوت ہی رہے گی
ہم عجمیوں نے دوری کی دیوار بنائی عربوں نے بھی غیروں کی طرح ہم سے نبھائی
پھر اپنے مقدر میں تو رسوائی ہی آئی تھی امتِ مرحوم کی قسمت میں خدائی
ہم اپنے گناہوں کی سزا پاتے رہے ہیں
ابتک سرِ مقتل ہمیں لہراتے رہے ہیں!
مذہب کے دکانداروں کے مذہب میں ہے دھوکا ہے نام پہ اسلام کے اسلام کا سودا
منبر ہی پہ کھل جاتا ہے پُر پیچ عماما یارب، ترے بندوں پہ کرے کون بھروسا
حافظ ہیں تو قرآن کو ہیں بیچنے والے
واعظ ہیں تو ایمان کو ہیں بیچنے والے

کیا ان کی صفت ہوگی بیاں کلکِ ندامت ملا بھی ہیں یہ رند بھی ہیں میرِ شریعت
مذہب پہ اجارہ ہے تو باندی ہے سیاست ہے روز قلا بازی انہیں کھانے کی عادت
کب تک مرے اللہ، ترے بندوں کی چلے گی
کرسی کے لیے حرمتِ اسلام بکے گی
قرآن کا مفہوم بدل کر ہیں سناتے مغرب کی ثقافت کو ہیں اسلام بتاتے
میلاد کی محفل کو نشانہ ہیں بناتے دو رنگی طبیعت کے کرشمے ہیں دکھاتے
مہنگا بھی ہے سستا بھی ہے اسلام یہاں پر
ہر قسم کا دیں ملتا ہے ملا کی دکاں پر
کچھ لوگ ہیں توہینِ رسالت پہ بھی مائل یہ عشق و محبت نہ عقیدت کے ہیں قائل
اِن لوگوں سے اسلام کی پیشانی ہے گھائل کیا ان پہ کھلیں جانِ رسالت کے فضائل
ان سینوں میں ایماں کی حرات ہی نہیں ہے
اللہ کے محبوب کی الفت ہی نہیں ہے
آغاز انوکھا ہے تو انجام انوکھا نشہ بھی انوکھا ہے تو ہے جام انوکھا
ان جھوٹے فقیروں کا ہے پیغام انوکھا خود ساختہ ولیوں کا ہے اسلام انوکھا
ہجویریؒ و اجمیریؒ و ملتانیؒ نہیں ہے
اِس دور میں کوئی بھی الف ثانیؒ نہیں ہے

توقیرِ رسالت کو ہے کم کرنے کی کوشش اللہ کے گھر ہی میں اٹھاتے ہیں یہ شورش
اُس ذاتِ مقدس پہ بھی تنقید کی یورش کیسےمیں کہوں یہ ہے مسلمان کی سازش
یارب، تو انہیں نورِ بصیرت بھی عطا کر
کم ظرفوں کو تو جذبۂ طاعت بھی عطا کر
وہ تاجِ نبوت کے ہیں اک مہر درخشاں ہیں عرشِ بریں پر بھی وہ تابندہ و تاباں
ہم اپنے مقدر پہ بھلا کیوں نہ ہوں نازاں موسیؑ بھی تو آقاؑ کی غلامی کے تھے خواہاں
آقائے مدینہ کی شفاعت کے ہیں طالب
اُس دستِ کرم چشمِ عنایت کے ہیں طالب
جن قدموں کے نیچے ہے شہنشاہوں کی عزت جن قدموں کی رنگینی ہے کونین کی دولت
جن قدموں پہ جھک جاتی ہے افلاک کی عظمت جن قدموں کی جاری ہے سرِ عرش حکومت
اُن قدموں سے تسکین ملی قلبِ بشر کو
شادابی و رنگینی ملی حسنِ نظر کو
ہے منبع افکار و خبر نورِ محمدؐ ہے باعثِ تخلیقِ نظر نورِ محمدؐ
ہے سینۂ قدرت کا شرر نورِ محمدؐ ہے مطلعٔ انوارِ سحر نورِ محمدؐ
میں اور بھلا حسنِ عقیدت کے بیاں میں
لفظوں کی رسائی ہے نہ طاقت ہے زباں میں

ایمان کی تکمیل ہے ایمانِ محمدؐ بہتر ہیں فرشتوں سے غلامانِ محمدؐ
دوزخ میں نہ جائیں گے ثنا خوانِ محمدؐ تو بھی تو ذرا تھام لے دامانِ محمدؐ
توہینِ نبیؐ شیوۂ ابلیس رہا ہے
گستاخِ محمدؐ جو ہے گستاخِ خدا ہے
لے آئے ہیں چوراہے پہ یہ حسنِ چمن بھی نیلام یہ کر دیتے ہیں مردوں کے کفن بھی
دیتے ہیں بدل دین کا ہر ایک چلن بھی بدلیں گے اب اک روز یہ قرآں کا متن بھی
ہے فرقہ پرستی کا جنوں اہلِ وطن پر
اک بوٹی بھی چھوڑیں گے نہ یہ دیں کے بدن پر
ہیں دامنِ ملت میں ابھی چند شرارے سرگرمِ عمل رہتے ہیں یہ درد کے مارے
ظلمت میں چمکتے ہیں امیدوں کے ستارے دیکھیں گی پھر آنکھیں مری وحدت کے نظارے
اک جذبہ اخوت کا یہاں بھی ہے وہاں بھی
صد شکر کہ ملت کو ہے احساسِ زیاں بھی
صدیقؓ کا پھر قلب و نظر ہم کو عطا کر فاروقِ معظمؓ کا ہنر ہم کو عطا کر
عثمانؓ کا حیدرؓ کا جگر ہم کو عطا کر حسنینؓ کا وہ دیدۂ تر ہم کو عطا کر
بندے ہیں گنہ گار ہمیں راہ دکھا دے
تاریخ کے اوراق سے اک بار ملا دے

افسردہ(1) نظر آتی ہیں پھولوں کی قطاریں مظلوم کے اشکوں سے ہیں رنگین بہاریں
اس قہر میں یہ عمرِ رواں کیسے گذاریں انصاف طلب کس سے کریں کس کو پکاریں
انصاف کے ہاتھوں میں ہے مجبور کی گردن
قانون کے پھندوں میں ہے مقہور کی گردن
زنداں (2) میں پڑے سڑتے ہیں عظمت کے جیالے ہر روز پیا کرتے ہیں سقراط پیالے
مقتل میں سرِ دار بھی سر لاکھوں اچھالے کرسی کے پرستاروں کے دل ہوتے ہیں کالے
ہونٹوں پہ جو پہرے ہیں تو آنکھ سے کہیں گے
احساس کے موتی مرے اشکوں سے بہیں گے
چڑھتے ہوئے سورج کے پرستار بہت ہیں اس کارِ ملامت میں گرفتار بہت ہیں
دیکھیں تو پسِ پردہ طلب گار بہت ہیں اِن مردہ ضمیروں کے خریدار بہت ہیں
اِن لوگوں کی قسمت ہے خوشامد کی سیاہی
یہ اپنی ضلالت کی ہیں خود آپ گواہی
جب(3) رنگِ شفق میں بھی لہو چمکا ہمارا جب رات کے دامن کا ملا ہم کو کنارا
جب ظلم کے سائے میں بھی جینا ہے گوارا کیوں درد کے اشکوں کو نہیں بہنے کا یارا
یزداں کو یہاں ڈھونڈ کے لانا ہی پڑے گا
یہ منظرِ دل سوز دکھانا ہی پڑے گا

1، 3 معاشی ناہمواریاں
2۔ شرکشی

انسان ہی انسان کی عصمت کے ہیں تاجر ہے حرص و ہوا بغض و ریا ان کا مقدر
انسان کی گردن پہ ہے انسان کا خنجر شیطانِ لعیں سے بھی یقیناً ہیں یہ بدتر
دولت کے پجاری ہیں اسیرانِ ہوس ہیں
لالچ ہی کی زنجیر میں پابندِ قفس ہیں
دولت کے خداؤں کا بھی ہے رنگ نرالا محلوں سے نکلتا ہے مروت کا جنازا
غربت کی سیہ رات میں بک جاتا ہے غازا کب تک مرے اللہ میں دیکھوں گا تماشا
مظلوم کی آہوں سے گریباں ہو رفو کیوں
پیتا ہی رہے بھائی ہی بھائی کا لہو کیوں
یہ (1) قید ہے انسان کی فطرت کے منافی ہے جبر تقاضائے مشیت کے منافی
ہے جو ر و جفا حسنِ جبلت کے منافی سچ پوچھو تو انسان کی عظمت کے منافی
سودا یہ حقیقت میں تو مہنگا ہی رہے گا
کب تک تری دنیا میں لہو اس کا بہے گا
کٹھ پتلیوں کا کھیل زمانے کو د کھایا انسان کو مہروں کی طرح تم نے نچایا
انساں کا لہو اپنی جبینوں پہ سجایا اور ظلم کا دربار سرِ عام لگایا
ہر فرد کے افکار جب آزاد نہ ہوں گے
اس ملک کے انساں کبھی دل شاد نہ ہوں گے

(1) کمیونزم

دولت کے خداؤں کی نہیں ہم کو ضرورت ہم جانتے ہیں جنتِ ا رضی کی حقیقت
غربت کی حکومت نہ امارت کی حکومت مطلوب ہے انسان کو انسان کی حرمت
ہندی میں نہ رومی میں نہ شامی میں ملے گی
یہ چیز محمدؐ کی غلامی میں ملے گی!
جس قوم نے پتھر کے خداؤں کو تراشا ہم نے اُسے احساس کی دولت سے نوازا
ہم نے اُسے ظلمت کے سمندر سے نکالا انصاف و مساوات کا تحفہ اسے بخشا
پیاسی ہے وہی قوم مسلماں کے لہو کی!
دشمن ہے مرے دین کے ایماں کے لہو کی
تصویر بنے کوچہ و بازار ستم کی تاریکی ہے تاریکی سرِ دار ستم کی
بڑھتی ہی چلی آتی ہے دیوار ستم کی چلتی ہے مسلمانوں پہ تلوار ستم کی
بھارت کی یہ لادین ریاست کا ہے نقشہ
جن سنگھ کے غنڈوں کی سیاست کا ہے نقشہ
ظلمت کی سیاہی نے نگلنا ہمیں چاہا نفرت کے سمندر میں اگلنا ہمیں چاہا
بھارت کے لٹیروں نے مسلنا ہمیں چاہا پتھر کے خداؤں نے کچلنا ہمیں چاہا
فولاد کی دیوار تھے ہیرے کی کنی تھے!
شمشیر کی ہم کاٹ تھے نیزے کی انی تھے

کڑکے سر میدان جو توپوں کے دہانے پھر زندہ ہوئے ماضی کے رنگین فسانے
تکبیر کے گونج اٹھے فضاؤں میں ترانے اور تازہ ہوئے حیدرؓ و خالدؓ کے نشانے
تاریخ کو دہرایا چونڈے کی زمیں نے
چھمب جوڑیاں کی وادیٔ گل پوش و حسیں نے
صحراؤں میں بھی دشمنِ مکار کو مارا اور کھیم کرن نے بھی کیا اس کا نظارا
ملتا نہ تھا بھارت کے سمندر کو کنارا دشمن کی فضاؤں پہ بھی تھا راج ہمارا
کرگس پہ جھپٹتے رہے شہباز ہمارے
دنیا میں مسلّم ہیں وہ انداز ہمارے
کس شوق سے تھی سینہ سپر داتا کی نگری واہگے کی زمیں شیروں کی للکار سے گونجی
ہر شیر کے سینے میں شہادت کی لگن تھی لاہور کا ہر غازی ہے تاریخ کی سرخی
کتنے ہی عزیزوں نے لہو اپنا بہایا
لاہور کی عصمت کو بہر حال بچایا
یہ شہر جو ا حساس کے پھولوں کا چمن ہے یہ شہر جو اقبال کی تنویرِ سخن ہے
یہ شہر جو اب زندہ شہیدوں کا وطن ہے یہ شہر جو تاریخ کے چہرے کی پھبن ہے
اس شہر نےہر وار کو سینے پہ سہا ہے
اس شہر کا خوں اپنی زمینوں پہ بہا ہے

دیکھے ہیں بہت جلوے یہاں شمس و قمر کے مغرب کے تمدن کے بھی تہذیب کے گھر کے
مداح بنے جانِ وفا تیری نظر کے مشتاق ہیں اے ارضِ وطن تیری سحر کے
پھولوں سے مہکتے یہ چمن زار رہیں گے
صیاد سے ہم بر سر پیکار رہیں گے
تاروں سے بھی روشن ہے وطن تیرا مقد ر ہر ذرہ ترا عزم و شجاعت کا ہے مظہر
ہر پھول ترا خونِ شہیداں سے معطر تابندہ و رخشندہ رہیں تیرے دلاور
پھر وقت پڑا تو ہمیں تلوار بنیں گے
سرحد پہ ہمیں خون کی دیوار بنیں گے
بنگال کے معصوم مسلمان تھے غافل مصروفِ عمل تھے کئی تخریبی عوامل
بنگالیوں کے بنیئے ہمیشہ سے ہیں قاتل مغرب کے لٹیرے بھی ہیں اس کھیل میں شامل
دشمن کو توقع تھی کہ کٹ جائیں گے بازو
کلچر کے کئی خانوں میں بٹ جائیں گے بازو
عیاری و مکاری ہے بنیئے کی سیاست اس نسخے پہ کرتا ہے عمل برسوں سے بھارت
تعلیم برہمن کی ہے نفرت سے عبارت چانکیہ کے بیٹوں کی ہے فطرت میں شرارت
قاسمؒ کے عساکر کا نہیں عزمِ جواں یاد
شاید نہیں محمودؒ کی وہ ضربِ گراں یاد

غداروں نے بنگال کی عصمت کو لٹایا مذموم مقاصد کے لیے ڈھونگ رچایا
ہر کوچے میں ہر بستی میں طوفان اٹھایا شاداب و حسیں وادیوں کو آپ جلایا
مجرم ہیں یہ قاتل ہیں گنہ گار وطن کے
انجام کو پہنچیں گے یہ غدار وطن کے
سفاکی سے انسانوں کو جب زندہ جلایا جب بہنوں کو ننگا کیا گلیوں میں نچایا
ماؤں کو جگر گوشوں کا جب خون پلایا چنگیز نے منہ اپنا جہنم میں چھپایا
معصوموں کا یہ خون ہے توقیر وطن کی
اور زندہ و تابندہ ہے تصویر وطن کی
جذ باتِ محبت کو سلا دینا تھا مقصد اسلام کے رشتوں کو مٹا دینا تھا مقصد
نفرت کے شراروں کو ہوا دینا تھا مقصد ان شعلوں میں ہر شے کو جلا دینا تھا مقصد
صد شکر کہ ملت کے جوانوں کے لہو نے
سب داغ مٹا ڈالے ہیں ملت کی جبیں سے
مغرب کی صحافت ہے تعصب کی علامت ناموسِ قلم ان کے لیے حرفِ ندامت
سچ کہنے کی جرات ہے نہ سچ لکھنے کی عادت مطلب کی یہ تفسیر میں رکھتے ہیں مہارت
یہ اپنے تعصب کو چھپا ہی نہیں سکتے
یہ جنگ صلیبی کو بھلا ہی نہیں سکتے

غداروں کے منہ پر ہے ملی وقت نے کالک اسلام کے دشمن تھے یہ قرآن کے تارک
اے ارضِ وطن تجھ سے جدا ان کے مسالک ہوسکتے نہیں جعفر و صادق ترے مالک
ہر گوشے سے آتی ہیں محبت کی صدائیں
اے ارضِ وطن تیرے جیالوں کو دعائیں
یوں پھینکو نہ چھپ چھپ کے مرے باغ میں پتھر ہمت ہے تو پھر وار کرو سامنے آ کر
لے آؤ کسی آقا سے مانگے ہوئے جوہر لے آؤ صنم خانوں سے دیوتاؤں کے لشکر
بیتاب جبینوں میں ہیں سجدے کہ گذاریں
سرحد پہ کھڑی پاؤ گے شیروں کی قطاریں
ہے ان کی شجاعت پہ فدا ایک خدائی کفار بھی ان شیروں کی دیتے ہیں دہائی
راشد(1) سے جواں فوجِ محمدؐ کے فدائی وہ آگ بجھاتے ہیں جو بھارت نے لگائی
اے دشمنِ مکار! سنبھل آتے ہیں غازی
تو جانتا ہے حشر اٹھا جاتے ہیں غازی
انسان کو انسان مٹانے پہ تُلا ہے تہذیب و تمدن کو جلانے پہ تُلا ہے
آزادی کی شمعوں کو بجھانے پہ تُلا ہے اور جنگ کو میدان میں لانے پہ تُلا ہے
ایٹم کی بلاؤں کا بھرم توڑ کے رکھ دو
اِن جھوٹے خداؤں کا بھرم توڑ کے رکھ دو

(1) چوتھا نشانِ حیدر

ہے جنگ کی پرچھاؤں کا دنیا میں بسیرا خورشید کے ماتھے پہ بھی بادل ہے گھنیرا
دنیائے سیاست پہ بھی چھایا ہےاندھیرا محکوم یہ کہتے ہیں کہ کب ہو گا سویرا
کب ظلم کا گھر آگ میں جل جائے گا یارو
کب عہد غلامی کا پگھل جائے گا یارو
افریقہ کے شیروں کو ملی یوں تو رہائی دکن (1) میں لٹیروں نے مگر لوٹ مچائی!
انسانوں نے انسانوں پہ کی تنگ خدائی گورے ہیں یہ افریقہ کے دامن کی سیاہی
آزادی ہے افریقہ کی قسمت کا ستارا
مغرب سے کہو چھوڑ دے مشرق ہے ہمارا
آزادی و بیداری کا گھر گھر میں ہے چرچا انصاف و مساوات کا خورشید بھی چمکا
پھوٹے ہیں بیابانوں سے سیماب کے دریا مشرق کی زمینوں کا مقدر بھی ہے جاگا!
مغرب کے لٹیروں کا فسوں ٹوٹ رہا ہے
دولت کے خداؤں کا فسوں ٹوٹ رہا ہے
کالوں کو تو انسان سے حیواں ہیں بناتے کالا ہو مسلماں تو قیامت ہیں اٹھاتے
انسان کی عظمت کے مگر گیت ہیں گاتے اور خود کو یہ تہذیب کا وارث ہیں بتاتے
اِن گوروں کے سینےہیں سمندر سے بھی کالے
اور ان کی زبانوں پہ تعصب کے ہیں چھالے

(1) جنوبی افریقہ

افلاس کے ماروں کے یہ غم خوار بنے ہیں افسوس لٹیرے ہی عملدار بنے ہیں!
دولت سے خدائی کےطلب گار بنے ہیں قوموں کے مقدر کے خریدار بنے ہیں
اِن ظلم کے ہاتھوں سے تو امداد نہ لینا
اِن مردہ ضمیروں کو بھی آواز نہ دینا
چوراہوں پہ بہتا ہے لہو جیسے ہو پانی تا ترک کے بیٹوں کے لہو کی یہ روانی
ہر سمت سے ہوتی ہے یہاں اشک فشانی اب خوں سے لکھی جائے گی قبرص کی کہانی
کہتے ہیں مکارس تو ہے یونان کا چیلا
لیکن یہ حقیقت میں ہے شیطان کا چیلا
انسان کی تذلیل کی تدبیر نکالی! عربوں کی ہے دستار سر راہ اچھالی
راتوں کو بنا ملک سرائیل کی ڈالی مغرب کے خداؤں کی ہے یہ چال نرالی
عربوں کی رگ جاں کا لہو پیتے رہیں گے
یہ مرتے رہیں گے وہ مگر جیتے رہیں گے
کیوں نوحہ کناں شرق ہے مغرب کے خداؤ کیوں مشرقِ وسطی کو دیئے غم کے الاؤ
کیوں ارضِ فلسطیں میں چلی خون پہ ناؤ کیوں ظلم کے بازو ہو بنے یہ تو بتاؤ
میزان کے پلڑوں کا ابھی خون ہے تازہ
کیوں آج نہیں چہروں پہ انصاف کا غازہ

عربوں کی ہزیمت ہے سیاست کا کرشمہ غیروں نے بھی اوڑھا تھا جو اپنوں کا لبادہ
بجھ جائے گا سینوں میں جو احساس کا شعلہ اقوام کی مجلس کا بھی نکلے گا جنازہ
اس موت کی پرچھاؤں سے پھر گہنے کا مغرب
اس خون سے رنگین کفن پہنے گا مغرب
جاگی نہ اگر اب بھی مسلمان کی غیرت اب بھی نہ ہوا ہم کو جو احساسِ ندامت
اب بھی نہ مٹی عربوں سےعربوں کی عداوت اب بھی نہ ہوئی پیدا دلوں میں جو حرارت
اب بھی نہ کھلی آنکھ تو پھر بند رہے گی
یہ ذلت و رسوائی بھی دو چند رہے گی
لادین ریاست کا جو یہ بیج تھا بویا! یہ تیری ہلاکت ہی کا سامان تھا گویا!
اِن عقل کی تدبیروں پہ بھی عشق تھا رویا ہاں سوچ مسلمان یہ کیا تو نے تھا کھویا
اسلام سے ہٹ کر ہمیں ذلت ہی ملی ہے
لا دین فسوں کاروں سے نفرت ہی ملی ہے
اب مسجد اقصیٰ پہ بھی آنسو ہو بہاتے اور قبلۂ اول سے محبت ہو جتاتے
منہ پھر بھی ہو تم غیر کے دامن میں چھپاتے یوں مصحفِ اسلام پہ دھبہ ہو لگاتے
قرآن کو سینے سے لگا کر بھی تو دیکھو!
اسلام کو آنکھوں پہ بٹھا کر بھی تو دیکھو!

بڑھتا ہی چلا جائے گا نفرت کا اندھیرا لہرائے گا جب تک نہ اخوت کا پھریرا
شیرازہ اگر ملتِ بیضا کا بکھیرا پھر دور رہے گا تری راتوں سے سویرا
کب تک یونہی غیروں کےاشاروں پہ چلو گے
ڈالر کے درانتی کے سہاروں پہ چلو گے
ظلمات کی آغوش سے پھوٹے گی کرن بھی نکھرے گا لہو ہی سے مگر حسنِ چمن بھی
ہے جیت کی ناکامیوں کے سر پہ پھبن بھی ان ٹھوکروں سے ابھرے گی منزل کی لگن بھی
کرگس تو اڑ ا کرتا ہے شہباز سے پہلے
موت اپنی ہی مرجاتا ہے پرواز سے پہلے
وتنام میں ہر موڑ پہ روشن ہیں چتائیں جلتے ہوئے انسانوں کی اڑتی ہیں قبائیں!
ایٹم کے دھماکے سے ہیں پر شور ف فضائیں دب سکتی نہیں حق و صداقت کی صدائیں
وتکانگ حقیقت میں مٹے ہیں نہ مٹیں گے
آزادی کی تاریخ میں یہ زندہ رہیں گے
سنتے ہیں کہ جلتی ہے سرِ شام جوانی تھمتی ہی نہیں خون کے دھاروں کی ر وا نی
اشکوں کی زبانی کبھی آہوں کی زبانی اے وادیٔ گل رنگ سنی تیری کہانی
ہر خار نہایا ہے یہاں اپنے لہو میں
ڈوبی ہے گلِ تر کی زباں اپنے لہو میں

ہنگامہ ہے آزادی کا کیوں نام لیا ہے ہنگامہ ہے مظلوموں نے کیا ظلم کیا ہے
ہنگامہ ہے کیوں جام شہادت کا پیا ہے ہنگامہ ہے کشمیر نے یہ جرم کیا ہے
دنیا کے خداوند، اسیروں سے تو پوچھو
یہ کیسی ہے چپ اپنے ضمیروں سے تو پوچھو
گر تکتے رہیں گے یونہی اقوام کی صورت مغرب کے فسوں کاروں کے پیغام کی صورت
بگڑے گی یہاں اور بھی انجام کی صورت کشمیر سے مٹ جائے گی اسلام کی صورت
مظلوم یونہی زخم یہاں سہتا رہے گا
انصاف کی منڈی میں لہو بہتا رہے گا
مجبور سے پوچھو تو یہ مجبور کی قاتل مقہور سے پوچھو تو یہ مقہور کی قاتل
اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کی قاتل اقوام کی مجلس یہ ہے جمہور کی قاتل!
کب لوگ بڑے چھوٹوں کو مسلا نہ کریں گے
کب ویٹو سے آزادی کو کچلا نہ کریں گے
قبرص کے نہتوں کو مٹایا تو اسی نے روڈیشیا میں خون بہایا تو اسی نے
وتنام کے گلشن کو جلایا تو اسی نے کشمیر کو سولی پہ چڑھایا تو اسی نے
گرتے ہوئے لوگوں کو اٹھانا ہی پڑے گا
ہر ایک کو انصاف دلانا ہی پڑے گا

وہ ہاتھ جو قبرص کے نہتوں پہ اٹھا ہے وہ ہاتھ جو وتنام کے لوگوں پہ چلا ہے
وہ ہاتھ جو عربوں کی رگِ جاں پہ گرا ہے وہ ہاتھ جو کشمیر کے زخموں پہ پڑا ہے
اُس ہاتھ کو اک روز سزا دے کے رہیں گے
مظلوم کے زخموں پہ ردا دے کے رہیں گے