استغاثہ- خون رگ جاں
(اپنے آقاؐ و مولاؐ کی عدالتِ عظمیٰ میں)
اے عظیم المرتبت اے دستِ فطرت کے کمال
ایک تو شہ کارِ خالق، حسنِ کامل کی مثال
نقشِ پا تیرے شعور و آگہی کی انتہا
ہے جہانِ رنگ و بو کی آبرو تیرا جمال
تو کہ ہے مخلوق میں کامل تریں، روشن تریں
تیری عظمت کا ثنا خواں خود خدائے ذوالجلال
تو کہ ہے رحمت دکھی انسانیت کے واسطے
تیری تعلیمِ محبت، زیورِ حسنِ مقال
تو وقارِ آدمیت، محسن ِ اعظم ہے تُو
تیرے اسم ِ پاک سے توقیرِ آدم ہے بحال
آئتیں قرآں کی تیری نعت میں نازل ہوئیں
پا سکے گا تیری عظمت کو کہاں میرا خیال
اے حبیبِ مالکِ روزِ جزا، فریاد سن!
امتِ مظلوم کو دے آج پھر جذبِ بلالؓ
اور کس کو اپنے اشکوں کی سنائیں داستاں
جُز ترے کرتا نہیں زخموں کا کوئی اندمال
مدتوں سے ہیں مسلماں فرقہ بندی کا شکار
مدتوں سے اجتماعی زندگی ہے پائمال
زر کے بیٹوں نے خریدی امتوں کی آبرو
آخری قطرہ لہو کا چوستے ہیں بدخصال
ہر تمدن کی طرف جھکتی ہے ملت کی جبیں
ہو چکا ہے اپنی تہذیبی انا کا انتقال!
وادیٔ کشمیر کی بیٹی کے آنچل کی قسم!
خون میں ڈوبی ہے اس کی عصمت و عفت کی شال
آج بھی ہیں نام لیوا تیرے پابندِ قفس
آج بھی اشکوں میں تر کشمیریوں کے ماہ و سال
اور قبرص کے نہتے اپنے خوں میں تر بہ تر
ہر قدم پر اک نئے صیاد کا پھیلا ہے جال
ارضِ اریٹیریا اندلس نہ بن جائے کہیں
آہ! اِن اسلام کے بیٹوں کو یہ دیں گے نکال
مشرقِ وسطیٰ کی حالت بھی ہے تیرے سامنے
خونِ مسلم میں تڑپ ،نَے سوز، نَے کوئی ابال
اٹھ رہے ہیں مسجدِ اقصیٰ سے شعلے آج بھی
جن میں تیرے نقشِ پا کی رفعتوں کا ہے گلال
کیا مسلماں کٹ نہ جائیں گے ترے ناموس پر
تیری تربت پر نظر ہے، اہلِ شر کی یہ مجال!
ہند کے ظلمت کدے میں کتنے منصوبے بنے
اِن کے ہاتھوں میں ہے تخریبی عناصر کی کدال
دے علیؓ کے وارثوں کو قوتِ خیبر شکن
لاالہٰ کی آج پھر دے ان کے ہاتھوں میں وہ ڈھال
عدلِ فاروقی کے نظارے کریں اہلِ نظر
تُو اگر چاہے تو ہر گز یہ نہیں امرِ محال
نا امیدی اور تیرے چاہنے والوں میں ہو،
کیوں بنی ہے فکرِ مسلم مرکزِ حزن و ملال
آج ویرانی برستی ہے ترستی ہے زباں
تھا کبھی گلشن کا پتہ پتہ شبنم سے نہال
منتظر ہیں کوئی ڈھارس ہی بندھائے دہر میں
بے بسی سے دیکھتے ہیں چشمِ فطرت کا جلال
روشنی اے منبعٔ انوار، کالی رات ہے!
روز و شب کی گردشوں میں چھپ گئی تیغِ ہلال
بے حسی نے چھین لی ہے جرأتِ اظہار بھی
تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اپنی امت کا زوال
مانتے ہیں کھو دیا ہے ہم نے خود اپنا وقار
مجرمانہ غفلتوں کا اور کیا ہوتا مآل
سینۂ افگار سے رستا ہے زخموں کا لہو!!
دیکھ تیری رحمتوں سے میں نے پوچھا ہے سوال