اے حدیثِ عشق و مستی کے مفسّرالسّلام- خون رگ جاں
(شاعرِ مشرق کے حضور نذرانۂ عقیدت)
حضرتِ اقبال اے پیغمبرِ دینِ خودی! تو سراپا سوزِ رومی،
سازِ عشق و آگہی
اضطراب و پیچ و خم سے آشنا تیرا نظام تو نگارِ زلفِ ہستی تو حکیمِ زندگی
تُو شعور و حکمت و فکر و نظر کا اک ورق دیدۂ بینا پہ روشن تیرے افکارِ خفی!
شوخیٔ گفتار تیری ابنِ آدم کا وقار کوثر و شبنم سے پاکیزہ ہے تیری شاعری
آج بھی نالے ترے ہیں گونجتے افلاک پر آج بھی بادِ سحر میں تیرے اشکوں کی نمی
تُو کہ اندازِ جہانبانی کا ہے رازِ دروں ٹوٹنے کو ہے زمینوں پر طلسم سامری
گرمیٔ انفاس تیری جدّتِ پرواز میں نسلِ آدم آسمانوں میں بہت آگے گئی
ہے ثریا بھی ترے نقشِ قدم پر کار بند ہم نشینی ہے میسر چاند تاروں کو تری
اے کہ تیرا نام روشن ہے جبینِ وقت پر آسمانوں پر مچی ہے دھوم تیرے شعر کی
تُو نے کیا لکھا حدیثِ آر زو کے باب میں اضطراب و شوق کی آندھی ضمیروں سے اٹھی
فکر تیری کہہ رہی ہے پیکرِ خاکی اتار منتظر ہے مردِ مومن کا جہانِ ناز بھی
عرشیوں کو انقلابِ مردِ مومن کی حیا فرشیوں کو ناز ہے مردہ دلی مردہ ہوئی
مفتیانِ شہر ابلیسی نظاموں کے نقیب خانقاہوں کے مجاور سو رہے ہیں آج بھی
سرورِ کونینؐ تیری آرزو کی انتہا ہے جدا ملّا سے بھی تیرا شعور بندگی
اے کو تُو ہے ترجمانِ روحِ دینِ مصطفیٰؐ آبروئے امتِ مرحوم ہے عشقِ نبیؐ
اے کہ تُو ہے صاحب لولاک کی ہستی میں گم باوجود اس کے بھی تو کرتا نہیں نفیٔ خودی
کیوں نہ صدیوں کی غلامی کا جگر پھٹتا یہاں ہے ترے نغموں میں شامل خونِ دل کی روشنی
تو کہ ہے حفظِ خودی کا پاسدارو پاسباں تُو کتابِ ابنِ آدم کا ہے اک حرفِ جلی
تو نے بخشے ہیں یقینِ آرزو کو بال و پر تُو نے دی ہے لذتِ آہِ سحر گاہی کبھی
ہے وہی سوزِ تپش، سوزِ جگر، سوزِ یقین کوئی چنگاری کہ بڑھتی جارہی ہے تیرگی
پھر کوئی احساس کے موتی چنے اس خاک سے پھر کوئی زندہ کرے گا راہ و رسمِ عاشقی؟
قوم کی آواز سن، ملت کے دکھ پھر بانٹ لے جلوۂ صد رنگ دکھلا، روشنی اے روشنی
اے حدیثِ عشق و مستی کے مفسّر السلام
اے جمالِ زندگانی کے مصّور السلام