شکارِ مصلحت (اعلان تاشقند کے بعد)- خون رگ جاں
خیال امن اچھا ہے اسی کی بات اچھی ہے یہ اقوامِ ستم کے واسطے
سوغات اچھی ہے
مگر میں پوچھتا ہوں بہرِ ناموسِ وطن یارو کہاں ہے جاں نثارانِ وطن کا بانکپن یارو
جو سترہ روز کی جنگِ بقا میں ہم نے لکھے تھے رگِ جاں کے لہو سے سر زمینِ پاک کے نغمے
وہ نغمے جو دلِ عشاق کے تھے راز داں یارو وہ نغمے جو تھے جمہورِ وطن کے ترجماں یارو
وہ نغمے جو تھے سرمایہ کسی شاعر کے دیواں کا وہ نغمے جن سے زندہ ہوگیا جذبہ مسلماں
کا
وہ نعرہ جو لگایا تھا چلو واہگے کی سرحد پر علی حیدرؓ، علی حیدرؓ، علی حیدرؓ، علی حیدرؓ
علی حیدرؓ علی حیدرؓ کے نعرہ زن کہاں ہیں اب ذرا سوچیں ، ذرا سمجھیں، ذرا دیکھیں جہاں
ہیں اب
وہ مجمعے اب کہاں ہیں گوش بر آواز لوگوں کے وہ نغمے جو کبھی مظہر تھے ملت کی امنگوں
کے
انہی نغموں کے خالق دوستی کا پاس رکھنے کو سرِ بازار ہیں محوِ تماشہ دیکھتے جاؤ
شکارِ مصلحت ہوتے نہیں افکار شاعر کے پرِ پرواز کٹ سکتے نہیں گلشن میں طائر کے
بتاؤ عارضی تھی کیا چمک خونِ شہیداں کی لگائی تھی یونہی بازی سپاہی نے دل و جاں کی
بتاؤ کیا ستم اب اہل وادی پر نہیں ہوتے بتاؤ جنتِ کشمیر کے جلوے نہیں روتے
اگر وہ سب حقیقت تھی اگر یہ سب حقیقت ہے اگر خاکِ وطن سے کچھ محبت ہے عقیدت ہے
تو پھر اسلامیوں سے یہ حماقت ہو نہیں سکتی
کہ دھوکے باز لوگوں سے رفاقت ہو نہیں سکتی