مرے بچوں کے ہاتھوں میں فقط ہیں پھول مدحت کے- ریاض حمد و نعت

مرے بچوں کے ہاتھوں میں فقط ہیں پھول مدحت کے
دریچے خود بخود روشن ہوئے پھر چشمِ حیرت کے

خدا سے مانگ لے بادِ بہاری، خوشبوئیں اُنؐ کی
تلاوت اُنؐ کے چہرے کی کریں انوار فطرت کے

عطائیں ہی عطائیں ہیں، دعائیں ہی دعائیں ہیں
مری دلجوئی کرتے ہیں مکیں شہرِ محبت کے

مرے ہونٹوں پہ رہتی ہے طلب شہر مدینہ کی
مری آنکھوں میں آنسو ہیں ندامت ہی ندامت کے

مؤدب سب کبوتر ہیں، مؤدب تتلیاں، جگنو
مؤدب سبز جھونکے ہیں ہوائے نور و نکہت کے

کوئی چہرہ نہیں فاروقِ اعظمؓ کی طرح روشن
کئی چہرے ہیں آقاؐ سامنے جھوٹی قیادت کے

حدودِ پادشاہی کا تصور بھی نہیں ممکن
ضوابط ہیں کڑے ہر دور میں اُس کی مشیّت کے

تلاشِ امن میں بھٹکے ہوئے لوگو! پڑھو اُنؐ کو
کھلے ہیں آج بھی در آپؐ کی زندہ شریعت کے

رہا مفلس کا مفلس میرے اندر کا تماشائی
مگر تعمیر کر ڈالے مقابر مال و دولت کے

اندھیروں میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے
جلیں ہر وقت ہاتھوں میں چراغ اُنؐ کی اطاعت کے

ریاضؔ آنکھیں کھلی رکھا کرو طیبہ کی گلیوں میں
نظر آثار آتے ہیں یہاں عہدِ رسالتؐ کے

*