ہر پیرہن بدن کا اگرچہ ہے کاغذی- ریاض حمد و نعت

ہر پیرہن بدن کا اگرچہ ہے کاغذی
نا آشنا زوال سے حُبِّ نبیؐ رہی

میں جانتا ہوں روزِ ازل میرے ہاتھ پر
رکھی گئی تھی نعتِ پیمبرؐ کی روشنی

پڑھتے ہوئے درود نبیؐ پر، یقین رکھ
شامل ہے اس عمل میں خدائے رحیم بھی

جلتی رہیں گی مدح کی تا حشر مشعلیں
اپنی بھی ہے ہوائے پریشاں سے دوستی

محرومیوں نے گھیر رکھا ہے تو کیا ہوا
آئے گی تھامنے مجھے رحمت حضورؐ کی

تھک ہار کر خلائے بسیط و عریض میں
نقشِ قدم حضورؐ کے ڈھونڈے گا آدمی

پیغام، تہنیت کے ملے ہیں کسے، ہزار
کس نے پڑھی ہے نعت ادب سے ابھی ابھی

قول و عمل سے آپؐ نے ثابت یہ کر دیا
دنیا و دیں میں علم کو حاصل ہے برتری

اے ہوشمند! ذاتِ تقدس مآبؐ سے
وابستگی کا نور ہے بنیادِ آگہی

ذکرِ جمیل سیدِ لولاکؐ کے طفیل
ہے معتبر دیارِ سخن میں سخنوری

سجدے بصد نیاز جبیں میں کریں قیام
پیشِ نظر ہے آج بھی سرکارؐ کی گلی

آقاؐ، نگاہِ لطف و کرم ہو عوام پر
طوفاں مچا رہی ہے اناؤں کی سرکشی

جینے کی ہر ہوس مجھے رکھتی ہے مضطرب
کیا میں حضورؐ، کیا مری بے کیف زندگی

خطبہ جنابِ سرورِ کون و مکاں کا ہے
انسانیت کے واسطے منشور آخری

امن و سکونِ دائمی کی آج بھی ریاضؔ
دیکھو افق افق پہ بشارت رقم ہوئی

ثلاثی

حضورؐ، شب کی سیاہی ہے اس قدر گہری
دکھائی ہاتھ بھی دیتا نہیں چراغوں میں
فصیلِ شہرِ تمنا پہ روشنی برسے

*

یقیں کی ڈھے گئی دیوار شہرِ ماتم میں
فضا میں ایک پرندہ نہیں مرے آقاؐ
فقط مدینے کی جانب کریں گے سب ہجرت

*