آقا حضورؐ، آپؐ کی چوکھٹ پہ آج بھی- ریاض حمد و نعت
آقا حضورؐ، آپؐ کی چوکھٹ پہ آج بھی
کب سے کھڑا ہے ایک ادھورا سا آدمی
سرکارؐ، ختم شب کی لکیروں کا ہو سفر
غم کی خلیج میرے تصور سے ہے بڑی
سر پر مرے قلم کے عمامہ ہے نور کا
باندھے ہوئے ہے ہاتھ ازل سے لغت مری
ہر راستہ ہے جانبِ طیبہ رواں دواں
ہر ذی نفس کو آج ضرورت ہے آپؐ کی
لپٹا ہوا ہے جَبْر کی صورت، مرے حضورؐ!
آسیب خوف کا مری دیوار سے ابھی
ہر شخص گم ہے اپنے تضادات میں، حضورؐ
دنیا تمام چشمِ کرم کی ہے ملتجی
آقا حضورؐ، جاؤں کدھر؟ راستے ہیں بند
دیوار و در میں کب سے مقیّد ہے روشنی
تُلنے لگا ہے عدل کی میزان میں ضمیر
کبر و ریا کے ہاتھ میں آئی ہے منصفی
آقا حضورؐ! عجز کی ٹھنڈی ہوا چلے
لعنت کے طوق میں بھی ہے گردن تنی ہوئی
صدیوں سے ہم کو اپنے تشخص کی ہے تلاش
لیکن ہمارے ہاتھ میں مشعل بجھی رہی
بارش کھڑی ہے سر پہ مگر امتی، حضورؐ
ہر پیرہن بدن پہ سجاتے ہیں کاغذی
موسم سے دوستی ہو کہ ہو دشمنی، ریاضؔ
کشتِ ثنا ہماری رہے گی ہری بھری
*