طواف قلم- کلیات نعت
اردو نعت میں جن نعت نگاروں کی فکری بنیاد اطاعت شعاری پر استوار ہے ان میں ایک
نام عبدالعزیز دباغ کا ہے وہ ان وابستگانِ نعت میں سے ہیں جو ناموری اور حصول شہرت
کے لئے نعت نہیں کہتے اور نہ وہ صنفِ نعت کی روز افزوںمقبولیت سے متاثر ہو کر اس کارواں
میں شریک ہوئے ہیں۔ صنفِ نعت اور صاحبؐ نعت ﷺ سے اُن کی محبت اور شیفتگی اطاعت سرشت
پس منظر رکھتی ہے اس امر کی نشاندہی اس لئے کی جا رہی ہے کہ معاصر ِقافلہ نعت میں کچھ
لوگ ایسے بھی آ ملے ہیں جن کا نعت سے تعلق نمائشی نہیں تو واجبی سا ہے یہ بات دکھ
سے کہی جا رہی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور ہر دور میں مذہبی شعائر اور عبادات کی ادائیگی
میں کچھ لوگ ایسے بھی رہے ہیں ___عام لوگ ہی نہیں ’علمائے کرام‘، ’زہدان وذاکرانِ عظام‘
بھی جن کا تعلق مذہب سے سرسری رہا ہے علمائے سوکی اصطلاح اسی سبب وضع ہوئی ہے۔
قافلۂ نعت میں دباغ ایسی شخصیات جیسا کہ پہلے نشاندہی کی گئی نعت میں حبّ اطاعت نژاد
کے نمائندہ ہیں نعت کے تخلیقی داعیے، جذبے اور ضابطے کے حوالے سے ’حب اطاعت نژاد‘ کی
اصطلاح وضاحت طلب ہے۔ دراصل ہر نعت گو کے ذیل میں ناقدین، محققین، دیباچہ نگار، تاثر
نویس اور رائے ہندگان یہ ضرور لکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے ’’ان کی
محبت، شیفتگی، فدویت، جاں سپاری اور فریفتگی کا اظہار ان کی نعتوں میں ہوتا ہے‘‘___یہ
فقرے اور ایسے تاثرات ہر نعت نگارکے لیے لکھے گئے مضامین اور فلیپوں پر عام ملتے ہیں
لیکن یہ تاثرات پوری طرح حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ دلوں کے حالات تو اللہ جانتا ہے لیکن
عاشقِ رسولؐ کے خطابات ان دنوں نعتیہ محافل کے اشتہاروں سے نعتیہ مجالس کی سٹیج پر
جس طرح بانٹے جا رہے ہیں اُس طرح صحابہ کرامؓ کے دَور سے انیسویں صدی کے آخر تک کہیں
تحریر و تقریر میں اتنی کثرت سے نظر نہیں آتے ہیں۔ عربی نعت کے عظیم انتخابِ نعت ’’المجموعۃ
النبہانیہ فی المدائح النبویہ‘‘ (مطبوعہ بیروت بحدود 1930)__چار جلدوں پر مشتمل ہیں۔
ان نعت پاروں کے لکھنے والوں کے بارے میں کہیں ایسا خطاب نظر آتا ہے جو اِن دنوں عام
ہے، بقول غالب
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
اس شعر میں حسن کی جگہ ’نعت‘ اور نظر کی جگہ ’ثنا‘ پڑھ لیں تو میرا مفہوم واضح ہو جائے گا۔
دباغ صاحب کی نعت نگاری ان امورو وسائل کا ادراک رکھتی ہے جو اس مبارک صنف کے لوازمات میں شامل ہیں نیز ان کا تخلیقی وجدان اس سازوسامان سے بھی پوری طرح آراستہ ہے جو فنِ نعت کے لئے ضروری ہے۔ ان کی نعت نگاری کا پہلا بھرپور تعارف ان کے مجموعہ نعت ’’مطافِ نعت‘‘ مطبوعہ2013ء سے ہُوا۔ ان کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’طوافِ قلم‘‘ ہے۔ اب یہ دونوں کتابیں کلیات کی صورت میں شائع ہو رہی ہیں۔
دباغ کی نعت پر گفتگو سے پہلے عمومی طور پر صنفِ نعت کے بارے میں کچھ بنیادی باتوں کا اعادہ ضروری ہے۔ ادبی حلقوں سے دینی حلقوں تک میں جب بھی نعت رسول اکرم ﷺ کی صنف کی بات ہوئی تو اس صنف کے احترام اور حرمت کے حوالے سے یہ بات بھی دہرائی گئی کہ نعت دوسری اصنافِ سخن سے موضوع کے طور پر ہی مختلف نہیں یہ صنف اپنی تدبیر کاری کے لحاظ سے بھی دوسری اصناف سے مختلف ہے۔ اس صنف کی انفرادیت اپنے لکھنے والے سے بھی بعض ضابطوں پہ کاربند رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ گویا نعت ایک صنف ہی نہیں ایک جداگانہ تخلیقی ضابطہ ہے جس کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ فنّی طور پر ایک پختہ کار اور ماہر شاعر اپنی تخلیقی مہارت کے سبب ایک نعت کہہ سکتا ہے لیکن نعت کی صنف اپنے لکھنے کو دین اسلام، سیرت رسو ل اکرم ﷺ اور ان سے متعلق دوسرے عقائد، شعائر، تہذیب، اخلاقیات اور دیگر اقدار کے احترام کار اور اس کا کماحقہ کے پابند بھی دیکھنا چاہتی ہے __ دوسری تمام اصناف اپنی ذات میں مقصد ہو سکتی ہیں لیکن عقیدت نگاری سے متعلق اصناف (مثلاً حمد، نعت، منقبت، سلام وغیرہ) رضا ئے الہیٰ کے حصول کے ذرائع میں مقاصد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نعت نگار فنّی طور پر پختہ نعت کہتا ہے مگر اپنی ذاتی زندگی میں اسلامی عقائد سے بے بہرہ ہے اور اس کے رویوں سے ان عقائد کے بارے احترام نہیں جھلکتا تو اس کی نعت گوئی زیاں کاری ہے۔ یہاں وہ حدیث مبارک یاد رہے جس میں ایسے روزہ دار کو جس کے باقی معاملات دینی ضابطوں کے مطابق نہیں وعید سنائی گئی ہے کہ اللہ کو اس کی بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں (مفہوم) اسی طرح ایسی نمازوں کے بارے میں بھی جو اخلاص سے ادا نہیں کی گئیں کہا گیا ہے کہ وہ میلے اور گندے کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھنے والے کے منہ پر ماری جائیں گی (مفہوم)
روزہ اور نماز کو اگر اسلامی عقائد، ضابطوں اور طاعت باری تعالیٰ سے مشروط کر دیا گیا ہے تو ایسی نعت گوئی کے بارے میں بھی یہ قیاس کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ دینی ضابطوں سے کٹ کر اور اسلامی عقائد شعائر سے ہٹ کر یہ محض لفظ جوڑنے کی مشق ہے جو نعت گو کی فردِ عمل میں اپنا کوئی وزن نہیں رکھے گی۔ ایسی نعت گوئی اور نعت خوانی جو نام و نمود، شہرت، جلب ِزر، انا کی تسکین اور محظ نمائش کے لئے ہو بارگاہ ایزدی اور دربار رسالت مآب میں قابل قبول نہیں۔دباغ جیسے نعت نگار جنہوں نے اسلوبی ضابطوں پر کار بند رہ کر کامیاب نعت نگاری کی ہے ہماری نعتیہ تاریخ کی وہ مبارک مثالیں ہیں جن کی وابستگیِ نعت نمائشی نہیں دلی ہے اور جو اپنے پورے شعور کے ساتھ اس مبارک صنف کی آبیاری میں مصروف ہیں۔
ہر مجموعہ نعت میں دو طرح کی شاعری ہوتی ہے ایک نعتیہ روایت جو صدیوں سے عربی فارسی
سے آتی ہوئی اردو زبان میں بھی اب کئی صدیوں کا سفر طے کر چکی ہے یہ روایت اپنے مضامین
و موضوعات کے ساتھ ان اسالیب بیان پر مشتمل ہے جس کے پیچھے ہزاروں چھوٹے بڑے نعت نگاروں
کی سعیِ جمیلہ جھلک رہی ہے یعنی نعت کے معروف مضامین و خیالات، مستعمل اسالیب، متداول
زبان موجود الفاظ و تراکیب کا ذخیرہ __ان کی ترتیب نو اور استعمال تازہ اس روایت کو
مستحکم کرتا جاتا ہے۔
دوسری شاعری اس فکری و فنی اثاثے میں اضافہ جات سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دونوں کی مثال
یوں سمجھئے جیسے روایت ایک دریا کی طرح ہے اور اضافہ جات وہ جھرنے، ندی نالے ہیں جو
راستے میں دریاسے ملتے جاتے ہیں اپنے نئے پن اور تازہ ذخیرۂ فکر کے ساتھ __اور پھر
آہستہ آہستہ وہ اسی دریا یعنی اسی روایت کا حصہ بن جاتے ہیں اگر آپ نے کبھی ’دومیل‘
جیسے مقام پر دو دریاؤں کو ملتے دیکھا ہو تو آپ کو انداز ہ ہو گا کہ ملنے کے بعد
کتنی دیر تک دونوں دریاؤں کے پانی کے دھارے اپنے جدا جدا رنگوں کے سبب پہچانے جا سکتے
ہیں پانی جن زمینوں سے گزرتا ہے وہاں کی مٹی، سبزے، پتھر کنکر ریت وغیرہ کو ساتھ لا
نے کے سبب کچھ دیر تک اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے پھر آخر کار دریا ہی سے ہم آہنگ
ہو کر اس کا ہم رنگ ہو جاتا ہے۔دریا کی اس روایت کو اگر ادبی روایت کے تناظر میں دیکھیں
تو ہمیں پتہ چلے گا کہ بڑے شاعر یا ادیب صدیوں تک اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھتے ہیں۔
اردو شاعری میں علامہ اقبال ایک روشن مثال ہیں __ایک موج تندوتیز جس کی علاحدہ پہچان
اپنے فکر اور فن کی تازہ کاری کے سبب ہمیشہ منفردرہے گی۔
بات کچھ طویل ہو گئی، نعت رسول اکرم ﷺ کی صنف کے حوالے سے چھپنے والے سینکڑوں مجموعوں
میں مضامین و اسالیب کے اعتبار سے ایک خاص رنگِ روایت کی شاعری ہو رہی ہے۔ اس روایت
میں منفرد اضافہ جات کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ ہمیں ہر مجموعے میں درج ذیل اشیا، رویوں
اور خصوصیات کی تلاش کرنا ہو گی۔
واضح رہے کہ قرآن مجید، احادیث رسول اکرم ﷺ، آنحضرت کی سیرت اور اسوہ ٔحسنہ سے ہزاروں
نعتیہ مضامین و موضوعات اخذ کرنے کے بعد بھی بے شمارنئے پہلو ایسے ہیں جن پہ نعت ہو
رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ یہ مضامین کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ اس کی وجہ انسانی ذہن
کی وسعتیں اور لا محدود صلاحیتیں ہیں۔ آتی نسلیں اپنے سماجی، تہذیبی، سیاسی، عمرانی،
نفسیاتی اور دوسرے علوم و فنون کے تناظرات نئے نئے زاویہ ہائے خیال اور اپنے ماحول
اور زمانے کی روشنی میں سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کریں گے اوراس آئینے سے ہر بار نئے
فکری خدوخال کشید کریں گے__یوں کسی نعت نگار نے اپنی نعتوں میں کس حد تک تازہ مضامین
تلاش کئے کسی شاعر کی انفرادیت دریافت کرنے کے لئے پہلا سوال ہو گا۔
1۔ زیرِ جائزہ نعت نگار نے نعت میں کتنے تازہ مضامین و موضوعات تلاش کئے۔
2۔ کوئی ایسی خیال آور تازہ زمین جو نعت کی فنّی او ر اسلوبیاتی روایت میں اضافہ کا
سبب بنی ہو۔
3۔ کوئی تازہ ترکیب…
4۔ موجود لفظیاتِ نعت میں کوئی اضافہ، کوئی تصرف، کوئی اجتہادی لسانی قدم…
5۔ کوئی نئی صنف شاعری؟ یاکسی پرانی معدوم ہوتی ہوئی صنف کی بازیافت…
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے عبدالعزیز دباغ کی نعت نگاری اطاعت نژاد محبت رسول ﷺ کا اظہار ہے۔ نعت کاری اور نعت نگاری دونوں کے لئے ایسی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ نعت لکھنی ہو __نعت پر بات کرنی ہو___ نعت کی تنقید و تحقیق یا فروغ و تشہیر کا کام کرنا ہو تو یہ محبت ایک مبارک بنیاد کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ مجھے قریب کی ایک مثال دینے دیجئے جب ماں اپنے بچے کا کھانا تیار کرتی ہے یا اس کے لئے سویٹر بن رہی ہوتی ہے تو خانہ بہ خانہ اس کی محبت اور ممتا کے جذبات بھی اس کام میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ نعت رسول اکرم ﷺ کی تخلیق اوپر دی گئی مثال سے لاکھوں گنا بڑا حترام طلب اور ادب خواہ کام ہے۔ نعت نگارشریعت کے جتنا قریب ہو گا، مذہب پر جتنا کار بند ہو گا نعت اور صاحبِ نعت رسول اکرم ﷺ سے اس کی محبت اتنی ہی زیادہ ہو گی اور وہ نعت لکھتے ہوتے، نعت کی بات کرتے اور سنتے ہوئے اتنا ہی مودّب ہو گا اور اپنے بیان میںشریعی تقاضوں کے ساتھ نعت کے فن کی تعظیم اور حرمت کاخیال کرے گا۔
عبدالعزیز کی شخصیت اور کردار کی نشوونما جس ماحول میں ہوئی ہے اس سے ان کی ادبی صلاحیتوں اور مذہبی قدروں کا شعور ملا، ان کی نعت سے دلچسپی بھی اسی فضا میں ہوئی۔ ان کا پہلانعتیہ مجموعہ ‘مطافِ نعت‘ 2013ء میں شائع ہوا۔ دوسر امجموعہ ’طواف قلم‘2021ء میں مرتب ہُوااور اب یہ دونوں مجموعے کلّیات کی صورت میں بہ یک کتاب شائع ہو رہے ہیں۔
دباغ کی نعت گوئی رسمی نہیں ان کی دلی محبت اور شیفتگی کی مظہر ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھئے کیا مبارک تمنا اور آرزو ہے۔
کبھی نہ ختم ہو یا رب مرا طوافِ قلم
مطافِ نعت میں چلتا رہوں قیامت تک
’طوافِ قلم‘ اور ’مطافِ نعت‘کیا تازہ اور بلیغ تراکیب ہیں۔ ان تراکیب نے دباغ کی خواہش اور دعا کی ترجمانی ہی نہیں کی اس ترجمانی کو محاکاتی رنگ بھی دے دیا ہے۔ محاکات کا شاعری کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ شاعر لفظوں کو اس ترتیب سے جوڑتا ہے اور ان کے زوج سے ایسے ایسے مرکبات بناتا ہے کہ قاری کی آنکھوں کے سامنے اس لمحے کے منظر اور کیفیت کی تصویر پھر جاتی ہے جس لمحے میں وہ شعر کہا گیا ہوتا ہے۔ یوں محاکات اور تمثالوں کے ذریعے شاعر اپنی تخلیق میں قاری کو بھی شریک تجربہ کر لیتا ہے۔
دباغ کی غزل کی ہئیت میں لکھی گئی نعتوں میں بھی کہیں کہیں نظم کا رنگ نمایاں ہے، یہ رنگ غزلِ مسلسل کی صورت میں ہے خصوصاً ان نعتوں میں جہاںنعت کا مطلع ہی اس وفورِ جذبات کا تعین کر دیتا ہے جو غزل کی ریزہ کاری کی بجائے مثنوی ایسے بہاؤ میں لکھی گئی ہیں۔ تسلسلِ خیال اور تکرارِ واردات ان نعت پاروں کا خاصا ہے، مثلاً ان کی یہ نعت دیکھیں جس کا مطلع ہے۔
آج بھی یا رب برستی یاد کی برکھا رہے
آج بھی آنکھوں میں بھیگا گنبد خضریٰ رہے
یہ نعت اکیس اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے ہر شعر کے دونوں مصرعوں کا آغاز ’آج بھی‘ سے ہوتا ہے ان دو لفظوں کے شمول سے پوری نعت میں ایک جذباتی تسلسل پیدا ہو گیا ہے۔اسی طرح ایک نعت میں ’ مرے آنسو‘ کی ردیف ہے اس میں شاعر نے اپنی نعتیہ کیفیات اور واردات کو ’میرے آنسو‘ کے ذیل میں تفصیل سے بیان کیا ہے اس کا مطلع ہے:
مدینے کی تمنا میں چمکتے ہیں مرے آنسو
ندامت بار آنکھوں میں ستارے ہیں مرے آنسو
اسی طرح ایک اور نعت جس کا مطلع ہے:
پھر یاد مصطفیٰ سے معطر فضا ہوئی
پھر مجھ کو حر ف و صوت کی جنت عطا ہوئی
ان نعتوں اور اس طرح کی اور کئی نعتوں میں وفور جذبات کی وہ صورت ملتی ہے جو ہمارے ہاں مثنویوں یا نظموں میں تسلسل جذبات میں نظر آتی ہے۔ عبدالعزیز دباغ کا وفورِ جذبات نعت، نظم نما نعت اور دوسری کسی بھی صنف جس میں وہ نعت لکھتے ہیں نظمیت پیدا کر لیتا ہے۔ دراصل نعت رسول اکرم ﷺ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ صاحبانِ ذوق اس پر قلم اٹھاتے ہیں تو طرح طرح سے اپنے بیان میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ تفصیل طلبی اور وضاحت پسندی نعت کی صنف کا بنیادی لازمہ ہے۔ اگر شاعر کا سیرتی مطالعہ وسیع ہے اور اس کا جذبِ نعت بھی بے کراں ہے تو ’’ صد سال می تواں سخن از زلفِ یار گفت‘‘__والی کیفیت کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ دباغ کی وہ نظمیں جن پر جداگانہ عنوانات دیئے گئے ہیں کے علاوہ ان کی غزل کی ہئیت میں لکھی جانے والی نعتوں میں بھی تسلسلِ بیان کی خوبی موجود ہے۔عبدالعزیز دباغ کی ایک نعت کا مطلع ہے
نُور پھیلا جو کائنات میں ہے رحمتِ مصطفیٰؐ کا سایا ہے
یہ جو سورج دُھلا دُھلا سا ہے، آپؐ کے دَر سے ہو کے آیا ہے
دباغ کی یہ نعت ایک منفرد آہنگ کی نعت ہے۔ ہر مصرع ساری الاوزان دو ٹکڑوں فاعلن فاعلن مفاعیلن یا فاعلاتن مفاعلن فعلن (بحر خفیف مسدس مخبون محذوف۔۔دو بار)میں تقسیم ہوتا ہے۔ اٹھارہ شعروں کی یہ نعت محاکات سے لدی ہوئی ہے۔ ایک ایک شعر میں حضور اکرم ﷺ کے جمال کی رعنائیاں اور درود شریف کی فضیلت اور اثرات کا بیان ہے۔ اپنے استعاراتی بہاؤ اور تلازماتی وسعتوں میں دباغ کی یہ نعت ان کی دوسری نعتوں سے جداگانہ اسلوبیاتی تنوع لئے ہوئے ہیں۔ اِس نعت کے تخلیقی ماحول کی بنت میں سورج، کہکشائیں، موجِ خوشبو، گہر، نور، پھول، بادِصبا، نعمت، سکوں، نغمگی، شہد، بہشت، جنگل، پرندے، شجر حجر، باغِ مدحت، تسبیحِ حسن، سرُور جیسے الفاظ نے جو جمالیاتی تاثرات ابھارے ہیں اس سے قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ محویت کے ایک ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ خود کو شاعر کا شریک تجربہ ہوتا ہے یہ نعت اس مقطع پر ختم ہوتی ہے۔
رات کو محویت کے عالم میں نعت پڑھتی ہیں جب عزیزؔ آنکھیں
غم میں ڈوبا ہوا وجود اپنا شاخ مدحت کا پھول ہوتا ہے
اس نعت کی تخلیق میں اُس کے صوتی آہنگ کے ساتھ اُس کے آزاد قوافی نے بھی موثر کردار ادا کیا ہے۔ آزاد اور کھلے قوافی میں سایا، آیا، پڑھتا، چھایا، جھونکا، صدقہ وغیرہ کی سہولیات سے دماغ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ بحیثیتِ مجموعی اس نعت کی فضا درود آمیز اور درود افزا ہے لیکن اس کے دو تین شعروں میں زیرِ لب آشوب عصر کا تذکرہ بھی ہے… سارا جنگل درود پڑھتا ہے… اور… پتہ پتہ ثنا میں ڈوبا ہے کہ بعد یہ دو شعر دیکھئے:
عالم حرف و نطق میں لیکن شامِ مکر و فریب اتری ہے
خونچکاں آبرو، دریدہ بدن، تیرگی نے جو ڈھانپ رکھا ہے
خون آشام قافلوں کی زمیں قتل انساں سے تھرتھرائی ہے
شام حوا لہو لہو ہر سو، کاروبارِ حیات پیسہ ہے
دباغ کی کچھ نعتیں غزل مسلسل یا نظم کے اسلوبیاتی پیرائے میں ہیں مثلاً … رازداروں کی زباں لکھوں والی نعت میں حضور اکرم ﷺ کی مدح کا ایک جداگانہ انداز ہے۔ شاعر مختلف مظاہرِ فطرت، مناظر، اشخاص کی زبان میں اوصاف پیغمبر بیان کرنے کا آرزو مند ہے اس میں یہ شعر دیکھئے:
رکھے ہیں سدرۂ اظہار پر حرفِ ثنا ان کے
نہیں ممکن وہاں کے نُور پاروں کی زباں لکھوں
یہ نعتِ نبیؐ کا مختلف طرز اظہار ہے۔ شاعر کا تخیل حیاتِ رسالت مآبؐ کے مختلف واقعات، معجزات اور سیرتی پہلوؤں کے حوالے سے آپؐ کی مدح کرنا چاہتا ہے۔ اس نعت پارے میں بھی دباغ کی قوتِ متخیلہ نے جو فضا بندی کی ہے قابلِ تحسین ہے۔
دباغ کی منفرد نعتوں میں ایک نعت ’’یہ بے قراریٔ ہجراں کا آخری دن ہے‘‘ دل گداز کیفیات کی ترجمان ہے۔ یہ نعت کا آخری مصرع ہے جسے انہوں نے نعت کے عنوان کے طور پر دیا ہے اس کا مصرع ادلیٰ ہے
؎ لحد میں طے ہے ملاقات کل عزیزؔ ان سے ___
اس طرح کی نادر نعتیہ تصویریں اور فکری و جذباتی بیانیے ان کی کتابوں میں جا بجا نظر آتے ہیں خصوصاً انہوں نے اپنی نعتیہ نظموں میں ایسے واقعات کا اظہار بڑی درد مندی اور دل گیر انداز میں کیا ہے۔
کتاب کے آخر میں’نثری حمدونعت‘ کے عنوان سے کچھ ثنا پارے ہیں۔ انہیں نثری نظم یا نثم کے ذیل میں بھی زیرِ جائزہ لایا جا سکتا ہے۔ غزل، نظم پابند، معریٰ نظم اور آزاد نظم کے بعد اردو شاعری میں نثر میں نعت کے نمونے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس طرزِ نعت کی روایت قدیم ہے نعت کے مرتبین نے اُمِّ معبدؓ کے اُن کلمات کو نعت ہی میں شامل کیا ہے جو ہجرتِ مدینہ کے دوران میں انہوں نے حضور اکرم ؐ سے اپنے خاوند کا تعارف کراتے ہوئے کہے۔ آپؐ کے شمائل و خصائل میں کہے گئے وہ چند نثری فقرے خوبصورت طرزِ بیان میں شمار ہوتے ہیں۔
نئی شاعری کے ذیل میں گزشتہ چھ سات عشروں سے ہمارے شاعروں نے نثر میں نعتیہ جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔مرزا غالب کا ایک شعر ہے:
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئیے وسعت مرے بیاں کے لئے
دباغ نے بھی اپنے پیرایۂ سخن کو وسعت دینے کے لئے نثری نظم کا استعمال کیا او رخوب کیا۔ ان نعتوں میں انہوں نے نعتیہ خیالات کو عصر حاضر کے مسائل سے آمیز کیا ہے۔ مغرب کے معاندانہ رویوں نے اسلامی فوبیا کے حوالے سے اسلام کے خلاف جو فضا بنا دی ہے دباغ نے اس پر پُرجوش انداز میں لکھا ہے۔ ان نظموں کی یہ لائنیں دیکھئے:
ہوا سے بات کرتا ہوں تو وہ رو دیتی ہے
اس کے آنسوؤں میں خالی حرم کعبہ اور اداس حرم نبوی کا عکس اسے
گردباد بننے پر مجبور کر رہا ہے
باب السلام سے باب البقیع تک
درود و سلام کے سندیسے لے جانے والی ہوا
اب چپ ہے، ہمکلام نہیں ہوتی، حرم سائیں سائیں کرتا ہے تو وہ
سسکیاں لینے لگتی ہے
ایک اور مثال دیکھئے :
اور ساری طب نبوی
یہی
وفا، دوستی، تعظیم، قربانی، اخلاص
عجزوانکساری، رواداری
ادب، لحاظ، مہربانی
اخلاق کی جڑی بوٹیوں پر موقوف ہے
دباغ کی فطرت میں چونکہ شاعری کے عناصر بنیادی طور پر شامل ہیں اسی سبب ان کی نثموں میں کہیں کہیں وزن ظاہر ہو جاتا ہے مثلاً یہ لائنیں دیکھئے:
آؤ مل کر اپنے اپنے گھر میں نعت کے پیڑ لگائیں
ان پر پھل آئے تو سارے کھائیں
آقا کی محبت میں
آپؐ کی نعلین پاک کی خاکِ مقدس کی برکات کو سونگھیں۔
اندر باہر مہر و وفا کی خوشبو پھیلے…(طبِّ نبویؐ)
عبدالعزیز دباغ کی نعت میں محاکات نے بھی کمال کا جادو جگایا ہے کہیں ساکت کہیں متحرک امیجز سے انہوں نے اپنے الفاظ کو تصاویر کا روپ دے دیا ہے۔ دباغ نے اپنی نعتوں میں کئی ایسی تمثالیں تراشی اورامیج تخلیق کئے ہیں جس سے نہ صرف ترسیل جذبات کے مرحلے خوبصورت اور آسان ہو گئے بلکہ قاری کے محظوظ ہونے کا سامان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اُن کا یہ شعر دیکھئے:
خاموش و با ادب ہیں پہاڑ اور راستے
ہے سب کوانتظار کہ گزریں گے آپ ابھی
اسی طرح ان کے کلام میں کہیں حس آمیزی (Synesthesia) کے موثر نمونے ملتے ہیں انہوں نے کہیں تمثالوں کے ہجوم (Cluster images) سے اپنی نعت کی تزئین کی ہے اور کہیں ڈرامائی تمثالوں کے ذریعے … ان کی نعت نگاری میں امیجز اور تمثالوں کی کئی قسمیں ملتی ہیں۔ ان کے یہ شعر دیکھئے:
میں نے صلّ علیٰ کہہ کے جس دم طوفِ کعبہ سے رب کو پکارا
میں کھڑا تھا مقام دعا پر اس نے چہرے سے پردہ ہٹایا
اک تجلی سے روشن تھا سینہ میں نے کعبہ میں دیکھا مدینہ
نور کا یہ عجب سلسلہ ہے مجھ کو روضے نے کعبہ دکھایا
کہیں انہوں نے مکالمے کی فضا سے اپنی نعتوں میں ڈرامائی تحرک پیدا کر کے اپنے نعتیہ جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ چند شعر دیکھئے:
کہا دربان سے میں نے ’محمد! التماس‘ اُس نے
بٹھایا مجھ کو چوکھٹ پر جو میں نے اس سے زاری کی
___
جہاں جہاں سے محبت کے قافلے گزریں
وہاں وہاں دیئے بن کر جلیں مری آنکھیں
نماز دید کا سجدہ طویل ہوتا ہے
جھکی ہوئی ہوں تو کیسے اٹھیں مری آنکھیں
___
ہر ایک شخص مدینے میں ہنس کے ملتا ہے
وہاں کی آب و ہوا میں شگفتگی ہے بہت
___
قبر میں لے کے جاؤں اگر میں، اپنے ماتھے پہ خاک مدینہ
اس کا ہر ذرّہ چمکے گا ایسے، جیسے جنت کا کوئی نگینہ
___
وہ لمحے یاد کے جو چشمِ تر میں رہتے ہیں
جواہرات کوئی زیر آب لگتے ہیں
عبدالعزیز دباغ کی نعت نگاری میں تراکیب سازی کا اپنا جداگانہ اندازہے، تراکیب جیسا کہ اہلِ فن جانتے ہیں، لفظوں کو نہیں دو جہان ہائے معانی کو قریب لانے کا نام ہے۔ان کے کلام میں متداول اور مستعمل تراکیب کے ساتھ بعض طبع زاد نئی تراکیب بھی ملتی ہے اگر ان شعروں کے معنوی سیاق و سباق میں ان تراکیب کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی ندرت اور معنویت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لے یہاں صرف ان تراکیب کی جمع آورہی کی جا رہی ہے۔ یہ تراکیب دیکھئے:
ورطۂ شرمندگی، صبحِ ورق، شامِ قلم، مطافِ شعر، بیتِ الحرم، جہانِ فن، رزقِ حرف، بیتِ ثنائ، حاجتِ خیر، انوارِ قربت، جذبِ رواں، تاثیرِ شفاء، فقرِ فراواں، فروغِ تجلی، زبانِ شوق، شاخِ جاں، ہجومِ نوریاں، انوارِ درود، یثربِ دل، وفورِ شوق، معارفِ سیرت، شرفِ لقائ، دہلیزِ مصطفیٰ، رغبتِ نفس، تقریبِ لقا، دہلیزِ مہرباں، جہدِ مسافر، جنتِ خیال، منبعٔ فتن، صبحِ مبشر، آستانۂ گل، اشکہائے ندامت، طوفِ ثنا، روضۂ اطہر، ساعتِ ابتر، دستِ غیب، وحدتِ غیب، حصارِ نعت، پیامِ نعت، سلسبیلِ ادب، سرودِ نعت، وفورِ نعت، کیفِ بیخودی، شعورِ نعت، آدابِ عشق، حریمِ تن، مطافِ نعت، ورائے سدرہ، جلوۂ مستور، ذوقِ یقیں، چراغِ آخریں، معرکۂ جاں، بندشِ زنداں، سودکاریِ پنہاں، شرمساریٔ عصیاں، عمرِ گریزاں، دمِ رحلت، ذوقِ ثنا، سیدِ یکتا، محیطِ عصر، نہالِ سدرہ، ضیاعِ عمر، نسیمِ خلد، صرفِ کتاب، کاسۂ سر، نگاہِ عفو، ہجومِ شوق، لطفِ مصطفائی، نعت و سخن، حرفِ حلاوت، حدودِ سدرہ، تلاشِ جلوہ، آبشارِ ندامت، اکلِ مال، حرفِ توبہ، ترمیمِ حرف، عشقِ مصطفیؐ، فصلِ آرزو، رہِ معتبر، شعلۂ آرزو، بندۂ نادم، اتباعِ نبوت، ربطِ رسالت، آرزوئے رضا، حسنِ غنی، شہرِ نور، سلسبیلِ ھدیٰ، جامِ سیرت، جولانگہِ حیات، شانِ شفاعت، حریمِ شوق، دیارِ لطف، کشتیٔ مدحت، جوار، حسن، حریمِ قرب، لمسِ درِ مصطفیٰ، راھداریٔ یومِ حساب، کیفِ بے پناہ، کاروانِ صوت و ثنا، عطائے جنتِ ماویٰ، حصولِ بادہ تسکین، نویدِ جرعۂ تسکیں، سایہ ابرِ رحمت، بصیرتِ دلِ مضطر، ساعتِ دعائے حرا، جبینِ آخرِ شب، ردائے اسمِ محمدؐ، گدائے کوچۂ رحمت، حرفِ مژدۂ بخشش، چراغِ نورِ محمدؐ، جہانِ لوح و قلم، ثنائے پیکرِ رحمت، کتابِ عشق پیغمبر، فسادِ رنگ و بو، نطقِ رسولِ پاک، وفورِ کرب، ندامت، غمِ رضائے نبیؐ، احساسِ شرمساریٔ غفلت، تزئین حرف و صوت، منزلِ دہلیزِ مصطفیٰؐ، بہارِ گلستانِ آرزو، بارگاہِ شافعِ محشرؐ، دعائے عفو و عنائت، نزولِ بخششِ داور، انائے چاک گریباں، اہلِ خلق و وفا، سفیرِ امان وحدت، پیامِ نعت درِ مصطفیٰ، غمِ رضائے نبیؐ، ورودِ حرفِ ثنا، زرِ ثنائے نبیؐ، فروغِ عہد رسالت، بیعتِ حرفِ ثنا، فکرِ نکتہ چیں، قیامِ چند ساعت، سرورِ بے خودی، متاعِ عالمِ امکاں، سجدۂ دلِ لرزاں، امورِ مردمِ ناداں، عرضِ حالِ پشیماں، نگارہِ مرشدِ کامل، فریب کاریٔ شیطاں، عنبرِ قربِ رسولؐ، ردائے کرب احد، رموزِ حکمتِ خلاقِ عالم، نہاں خانۂ انوارِ حرم، نزولِ آیۂ صدا انبساط۔
التماسِ غلاماں، رغبتِ قرآں، باطنِ لرزاں، خوف فراواں، ستونِ توبہ، وسعتِ ثنا،
شوکتِ ثنا، قامتِ ثنا، حواس پاش، پیکرِ خضوع، اعزازِ استجاب، صبحِ سعادت، صوتِ ستائش،
پروازِ فصاحت، ہوسِ زر، فصلِ دعا، رغبتِ دنیا، آئینۂ خلوص، آشوبِ عصر، ماہتابِ ذوق،
شاخِ آرزو، فصیلِ وقت، صبحِ نجات، فشارِ آرزو، صدقِ تنما، موجِ قلم، بابِ وصل، بابِ
کرم، عجزِ دعا، فصلِ ثنا، شہدِ سلام، صبحِ سکینت، غرقِ ملامت، لقائے حق، نگہِ التفات،
خامۂ مدحت، آیۂ قبلہ، تسلسلِ پیہم، حضورِ حق، ہیبتِ محشر، متاعِ بے بہا، گردابِ
نفس، حرف و صوت، صبحِ التفات، آبنائے شوق، حرفِ آرزو، تعاقبِ خوشبو، اہلِ ثنا، بیتابیٔ
فراق، فصلِ دعا، حضورِ حق، اذنِ ندا، نور بار، لطفِ غِنا، رہ، مصطفیٰؐ، نفعِ فراواں،
صبحِ بشارت، خلعتِ عظمت، حسنِ ستایش، پروانۂ عفو، بارانِ شفاعت، شدتِ رغبت، عرصۂ
حشر، شامِ خشیت، عیدِ میلاد، درِ اقدس، کشکولِ زندگی، بخشش نگر، شوکتِ زر!، یمِ بیقراری،
یمِ بیکراں، رفتارِ جنوں، طائرِ سدرہ، حرفِ توصیف، جرعۂ صبر، غرقابِ بلا، کیفِ حضوری،
موجۂ توصیف، نگہِ کرم، کربِ رضا، احساسِ خطا، عفوِ لغزش، زمزمِ نعت، یمِ بیخودی، عالمِ
طاغوت، خمارِ شوق، بہشتِ دید، ذکرِخیرالوریٰؐ، حرفِ توصیف، سرورِ توبہ، پیاماتِ وحی،
سدرۂ اظہار، دعائے عفو، نعمتِ حق، کارزارِ لوّامہ، سلسبیلِ جنوں، دستِ کشاد، فصلِ
نغمگی، کیفِ حاضری، شبنمِ ندامت، آیۂ ادب، رمزِ استقامت، کربِ شرمساری، سجدۂ ندامت،
شانِ عاجزی، صورتِ وحی، لمسِ طیبہ، ساغرِ ثنا، لمسِ نور، سایۂ عطا، التجائے شبِ جاں،
فروغِ توبۂ سوزاں، خزائنِ جودوسخا، طلعتِ مہرِ ھدیٰؐ، ترتیلِ نزول، لہجۂ لحنِ نبیؐ،
پیکرِ اخلاقِ ربانی، حرفِ تسلیمِ غلام، غوغائے تحدیثِ ہوا، ردائے چشمِ ابیض، موجِ اشکِ
شرمساری، وقفِ حصولِ رضا، شوخیٔ دستِ حنا، لمحۂ یاد خطا، جمالِ سیرت و قرآں، لمسِ
درِ مصطفیٰؐ، قلزمِ وفورِ تمنا، امیدِ درِ رحمت، شعلۂ آتشِ نمناک، شعلۂ جامِ محبت،
موجۂ کیفِ حضوری، تندیٔ صرصرِ تذلیل، روحِ ارض و سما، چراغِ قلبِ حزیں، درودِ حبس
و تمازت، کربِ تیرہ شبی، جوارِ گنبدِ خضرا، بنائے عزّوشرف، صوتِ نُطقِ الٰہی، شامِ
مکر و فریب، عالمِ حرف و نطق، نیازِ گدازِ توبہ، فریبِ سمع و بصر، خوابِ لمس خُو، وفورِ
حُبِّ نبی، چشمۂ فروغِ حیات، مستیٔ ثنائے نبی، شبِ کربِ فراق، صبحِ تعمیرِ جہانِ نو،
چشمۂ عرفانِ ذاتِ حق، عزمِ کوئے حبیبؐ خدا، اجرِعشقِ صحبت اہلِ رضا، التفاتِ شہِ لولاک
لما، سکینتِ نگہِ لطفِ سرمدی، وفورِ غم سرِ مژگاں، محوِ توصیف عالمِ حیواں، تسبیحِ
حسنِ ارض و سما،
عبدالعزیز دباغ کی نعت جیسا کہ پہلے نشاندہی کی گئی ہے رسمِ نعت نہیں، وہ ایک مقصد
کے حصول کا ذریعہ ہے، ایک ایسا مقصد جو دباغ کی زندگی، مذہب اور اسلامی شاعری کے ساتھ
جُڑا ہُوا ہے۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ
؎ پیامِ نعت سفیرِ امان و وحدت ہے
اُن کی نعت نگاری کا مطالعہ اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ انہوں نے نعت گوئی کا شغلِ مبارک مجلس آرائی کے لئے اختیار نہیں کیا۔ وہ نعت کے ذریعے افراد ِملّت کو قریب لانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ او ر وطن عزیز جس آشوب کا شکار ہیں اِس کا احوال نامہ دباغ کی نعتوں میں جہاں بھی مرقوم ہُوا ہے بڑی دردمندی سے ہُوا ہے۔ ’دباغ کی نعت میں آشوبِ عصر‘___ ایک جداگانہ مقالے کا متقاضی ہے اُن کے نزدیک اگرچہ ؎ در نبیؐ پہ حضوری کو نعت کہتے ہیں__لیکن وہ نعت کو مسلمانوں کی ذہنی پا بجائی (Mental Rehablitaion) کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت میں شعری جمالیات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے وہ مسائل بھی بین السطور نعت بند ہو گئے ہیں جن سے آج ہم بحیثیت مسلمان دو چار ہیں۔ اُن کی نعت میں عصری شعور اور حسیّت کی نشاندہی بلاشبہ نعت کو آگے بڑھا وا دینے والی مثبت قدر ہے۔
بحیثیت مجموعی عبدالعزیز دباغ معاصر نعت نگاروں میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ اُن کے مضامینِ نعت میں بھی ندرت ہے اور طرزِ اظہار میں بھی __وفورِ شوق اُن کی نعت گوئی کی بنیاد ہے کچھ ریاض حسین مرحوم کے اثرات کے سبب__کچھ اُس تحریکی ماحول کی وجہ سے جس میں وہ گزشتہ کئی عشروں سے سرگرمِ کار ہیں۔ کہیں کہیں قرآنی الفاظ اور احادیث رسول اکرم ﷺ نے ان کی نعت کے مزاج کو بڑا وقیع اور بلیغ بنا دیاہے۔ ان کی نعتیں مجالس میں پڑھی جانے کی بجائے تنہائی میں پڑھے جانے سے قاری کے ذہن و دل کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اُن کی شعری زمینیں تازگی لئے ہوئے ہیں۔ بیان میں وارفتگی اور بہاؤ ہے، ان کا سیرتی مطالعہ بین السّطور ان کی نعتوں میں جھلکتا ہے اگر ان کے کلام کی تخریج کی جائے اور اس حوالے سے ان کی تعلیقات کا گوشوارہ بنایا جائے تو ہمیں اس فکری اثاثے کا اندازہ ہو گا جو اُن کی نعت نگاری کو معاصر نعت دوستوں سے الگ اور ممتاز ٹھہراتا ہے۔ فدویت، جاں سپاری اور شیفتگی کا اظہار اُن کی ہر نعت سے ہوتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اس فنِ شریف کو سرسری انداز میں نہیں لیا بلکہ اسے اپنی قلبی واردات کے طور پر نعت بند کیا ہے۔ دباغ کی نعت جن کیفیات کی ترجمان ہے وہ صاحبانِ حال پر ہی وارد ہوتی ہیں۔ یہ تجربے ہر کسی نعت کار کا حصہ نہیں۔ان کے یہ شعر دیکھئے جس میں کم و بیش وہ تمام فنی محاسن جھلکتے ہیں جو اعلیٰ شاعری کا حصہ ہوتے ہیں۔
مدارِ نعت پہ یوں کاروانِ وقت تھما
سمٹ کے رہ گیا سارا سفر زمانوں کا
___
ہے کائنات کا ہر ذرّہ صاحبِ ایماں
ہے کائنات کا ہر ذرہ امتی اُنؐ کا
___
ثنا کے وجد میں رہتی ہے کائنات تمام
ثنا کے نور سے روشن جہاں کی پہنائی
___
یوں تنفس میں رہے بادِ شفا
زہر‘ ترغیب کا زائل ہو جائے
___
ہے کس شمار میں یہ بندۂ حقیر ترا
تری رضا کا طلبگار ہے فقیر ترا
___
فضائے کعبہ پہ میں نے جو آنسوؤں سے لکھی
اُس التجائے شبِ جاں کو خوب جانتا ہے
___
تو سبز کرتا ہے برگِ خزاں رسیدہ کو
مجھے بھی بخششِ احوال کی تمنا ہے
___
ستونِ توبہ کی تمثیل کے تصور میں
وجود کاوشِ پیہم سے باندھ رکھا ہے
___
ذخیرہ جیسے ہو پانی کا بادلوں میں نہاں
بھری ہے روح میں توبہ تری رضا کے لئے
___
سلگ رہا ہوں میں کب سے تری محبت میں
ہوں ملتزم پہ، مرے دل کی آنکھ بھی نم ہے
___
محفلِ ہستی کی ہر صوتِ ستائش پر درود
نور میں بھیگے ہوئے ہر حرفِ مدحت کو سلام
___
وفورِ جوشِ براہیم گلشنِ توصیف
شبابِ حمد و ستایش دعائے ابراہیم
___
وقت پیچھے کو چلا ان کی رضا کی خاطر
سینۂ ماہ کٹا ان کی رضا کی خاطر
___
مجھ کو بھی کربِ حنانہ ملے لمحہ لمحہ
اُن کا پھر پیار لپیٹے مجھے لمحہ لمحہ
___
ارواحِ برگزیدہ بھی محوِ طواف ہیں
پیہم مطاف میں ہے رواں مصطفیٰ کا نور
___
سلے ہیں لب، ہے فغاں خیز خامشی لیکن
ہے ماحصل تو فقط میری بے بسی لیکن
___
جنہیں تھا لمس حاصل آپ کے قد مینِ رحمت کا
تمنا ہے کہ میں ان رہگذاروں کی زباں لکھوں
___
مطافِ نعت میں جاری رہے طوفِ قلم میرا
پیمبرؐ کے بڑے مدحت نگاروں کی زباں لکھوں
___
رکھے ہیں سدرۂ اظہار پر حرفِ ثنا ان کے
نہیں ممکن وہاں کے نور پاروں کی زباں لکھوں
___
رات بھر، یاد، کلی بن کے نہ چٹکی لب پر
دل کی دھڑکن میں رہی حرفِ ثنا کی صورت
___
یا نبیؐ، اُس پہ بھی ہو لُطف و کرم، جود و سخا
میرا بیٹا کہ ہے محروم گدا کی صورت
___
چھین لیتے ہیں بچوں کے نوالے منہ سے
حکمراں، سایۂ آسیب بلا کی صورت
___
نطقِ عنبریں بن کر مدحتِ نبیؐ اتری
حرف کے جھروکے سے مجھ پہ روشنی اتری
___
انؐ کی نور چوکھٹ پر، انؐ کے نور قدموں میں
اعتکاف کی صورت، قربتِ جلی اتری
___
دل کی آنکھ جب بھیگی شبنمِ ندامت سے
آیۂ ادب بن کر مجھ پہ زندگی اتری
___
پہن کے جاتا ہوں جب چیتھڑے خطاوؤں کے
بس اشکبار، بہت اشکبار ہوتا ہوں
___
لمسِ طیبہ میں سکینت ہے، شفار کھی ہے
سانس لینا ہی مدینے میں، تواں ہونا ہے
___
کیسے آشوب میں الجھا ہے نظام ہستی؟
دیکھو خالی ہے مطافِ کعبہ
___
ہمیں جانے کی اجازت ہی نہیں
درِ رحمتؐ پہ کوئی چشمِ ندامت بھی نہیں
___
رحمتِ شافعِ محشرؐ کے گھنے سائے میں
آو اصلاحِ خطا کی جائے
امتِ جانِ جہاںؐ کی خاطر
آؤ بخشش کی دعا کی جائے
___
حضورؐ زہر بپا ہے فضائے عالم میں
حضورؐ ایک بھی کاندھا نہیں ہے، میّت ہے
___
اُسی کے نام سے رغبت، اُسی کے ذکر سے کام
یہ بے نیازیٔ نام و نمود کیا کہنے
___
کھسکتی رہتی ہے ہر دم زمین پاؤں سے
سنبھالتا ہے رمِ زندگی وہی میری
___
خیالِ نحل میں گفتارِ نمل میں بھی وہی
صفا ہو یا کہ طویٰ آیتیں اسی کی ہیں
___
امت خجستہ حال ہے شدت کی دھوپ ہے
اس کو حضورؐ سایۂ رحمت عطا کریں
عبدالعزیز دباغ کی نعتیہ نظموں میں نطقِ مدحت ___گلشنِ توصیف___کربِ حنانہ___ درِ توبہ وَاہے___اور فیس بک فرینڈز__ قابلِ توجہ ہیں۔ انہوں نے ان نظموں میں جن موضوعات کو قلم بند کیا ہے وہ اُردو نعتیہ نظموں میں کم کم زیرِ بحث آئے ہیں۔یہ نظمیں ڈرافٹنگ اور پیش کش (Treatment) کے لحاظ سے نادر اور مؤثر ہیں۔عبدالعزیز دباغ نے نعت کی صنف کو جس وابستگی کے ساتھ زبان و بیان کا حصہ بنایا ہے اس سے غزل اور نظم دونوں صنفوں اور ہئیتوں میں نعت کے آفاق وسیع ہوئے ہیں۔ ان نعتوں سے اُن کی شاعری ہی نہیں اُردو نعت بھی ثروت مند ہوئی ہے۔ انہوں نے نعت کے فکر و فن کو جس ذمہ داری سے نبھایا ہے اُن کی اپنی ایک نظم کے حوالے سے وہ اُس میں سرخرو ہوئے ہیں۔ اُن کی یہ سطریں دیکھئے:
مگر ربِّ محمد نے قسم کھائی قیامت کی
برائی پر ملامت کرنے والے نفس کی
ہماری ہڈیاں کیا!
انگلیوں کے جوڑوں اور پوروں کو بھی
اپنے حسنِ خلقت سے سنوارے گا، اٹھائے گا
اور یہ بھی پوچھے گا
بتاؤ تو!
مرے محبوب پر ایمان لائے اور محبت کی؟
ادب، تعظیم، طاعت کی؟
وہ اس سوال کے جواب میں پریشان نہیں ہو ں گے بلکہ اُن کی نعتوں کی سطر سطر حضور اکرم ؐ پر ایمان لانے __اُن سے محبت کرنے __اُن کے ادب، تعظیم اور طاعت کی گواہی دے گی۔
عبدالعزیز دباغ کی نعتوں کے کلّیات پر مَیں اپنے تاثرات اس رباعی پر ختم کرتا ہوں:
کیا عرض کریں نوا تری کیسی ہے؟
معمول سے مختلف ثنا جیسی ہے!
اخلاص سرشت‘ حُبّ فزا‘ صدق اسلوب
دبّاغ کی کلّیاتِ نعت ایسی ہے
ڈاکٹر ریاض مجید
ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس
----------------------
مطافِ نعت
اِشاعت اَوّل: 2013ء
اِشاعت دُوُم : 2021ء
شیخ عبد العزیز دباغ
غمِ رضا ہو، ندامت ہو، خوفِ عقبیٰ ہو
ہو لب پہ حرفِ صداقت تو نعت ہوتی ہے