عرضِ مرتّب- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

ریاض حسین چودھریؒ جہان مدحت نگاری کا ایک بڑا نام ہیں۔ زود گو، بسیار گو، حسنِ شعریت کے جدید معیارات تخلیق کرنے والے، روایت کی کوکھ سے آنے والے وقت کے نعتیہ شعور کی شکل و صورت نکالنے والے، اپنے اسلوب، شعری لغت، ہئیت آفرینی اور تراکیب و استعارات کی کہکشائیں وجود میں لانے والے شاعرِ رسولؐ زندگی کا لمحہ لمحہ لوح و قلم سے نورِ حمدو نعت کی سحر آفرینی میں مگن رہے۔ محوِ مدحت، ان کے ساتھ کائنات یا وہ کائنات کے ساتھ محوِ درود رہے۔

درویش صفت ریاضؒ لکھتے تو رہے مگر اپنے کلام کی اشاعت کے اسباب کے حوالے سے محرومیت کے احساس سے آزردہ رہتے۔ مگر عاشق صادق تھے، رب کریم نے آپ کی تخلیقات کی ترویج کے لئے انتظامات فرما ہی دئیے۔

میں نے یہ دیکھا کہ وہ اپنی صحت کے مسائل اور منصبی مصروفیات اور کل وقتی مدحت نگاری کے مزاج کی وجہ سے اس طرح کے تعلقات عامہ استوار نہ کر سکے جو ان کی شعری ترویج و تفہیم اور وفور رابطہ کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ چند سرکردہ دانشوروں کے ساتھ ان کا مؤثر رابطہ رہا مگر میڈیا کی دنیا میں وہ زیادہ معروف نہ رہے۔ اس کا نتیجہ میں نے یہ دیکھا کہ پبلشر حضرات ان سے اپنے کاروباری مفادات کی بنیاد پر کتاب چھاپتے خواہ وہ صرف دو سو کی تعداد میں ہوتی۔ میں نے ایک صاحب سے جب اس ضمن میں گفتگو کی تو ان کا نظریہ بہت واضح تھا کہ آج کل لوگ کتاب نہیں پڑھتے۔ موبائل نے انقلاب برپا کر دیا ہے اور کتاب بھی نعت کی، جس کے قارئین بھی مخصوص حلقۂ ذوق سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا کتاب چھاپ کر پبلشر اپنی رقم دوکان میں بند کر کے نہیں رکھ سکتا۔ یہ عملی مسائل ایسے تھے جن کا چودھری صاحب جیسے درویش مدحت نگار کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ احقر نے ان کے آٹھ نعتیہ مجموعے شائع کئے جب کہ ساتھ کتب وہ چھپوا چکے تھے اس طرح 2017تک پندرہ کتب شائع ہو گئیں مگر افسوس کہ اگست 2017 میں چودھری صاحب ہم سے بچھڑ گئے۔ حال ہی میں سید صبیح الدین رحمانی صاحب نے التفات فرمایا اور نعت ریسرچ سنٹر کراچی سے ریاض کا غیر مطبوعہ کلام بھی شائع ہو گیا ہے۔ الحمد للہ !

سید صبیح الدین رحمانی صاحب فروغِ نعت کے بہانے ڈھونڈنے والے اعلیٰ شعور حمد و نعت کی ترویج میں مگن رہنے والے بارگاہِ پیمبرؐ کے پروردۂ لطف و کرم ہیں۔ ریاض کے نعتیہ کلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ آپ نے ریاض کے شعور نعت کے فروغ کے لئے آپ پر لکھے گئے نثر پاروں کو بھی قارئین تک پہنچانے کی ترغیب دی اور رہنمائی فرمائی۔ چنانچہ کئی تحریریں ملیں جن کو ایک ترتیب سے اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ریاض کی نعتیہ شاعری پر اساتذۂ فن کی یہ نادر تحریریں یقیناً شعور نعت اور نقد و نظر کے فروغ کے سلسلے میں ایک بڑے خزانے کا درجہ رکھتی ہیں جنہیں یہاں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ ان کا مطالعہ اساتذہ، محققین، ادبا و صاحبان نقد و نظر کے لئے بالعموم اور تحقیق حمد و نعت میں مصروف طلبہ و طالبات کے لئے بالخصوص بے حد کار آمد ہو گا۔

سید صبیح الدین رحمانی صاحب کو رب کریم سلامتی سے نوازیں، کتاب کی اشاعت میں آپ کے تعاون اور رہنمائی کے لئے احقر دل کی گہرائیوں سے ان کا شکر گذار ہے۔

شیخ عبدالعزیز دباغ