تمنائے حضوری : صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
زندگی دراصل۔ ۔ ۔ آرزو۔ ۔ اور موت۔ ۔ ۔ مرگ آرزو۔ ۔ ۔ کا نام ہے۔ آرزو کے بغیر زندگی ایک تہمت ہے، جیسے روشنی کے بغیر سورج مٹی کا ایک تودا اور جسم روح کے بغیر ایک جنازہ۔ گرمیٔ حیات کا سارا دارو مدار آرزو پر ہے، یہ نہ رہے تو زندگی اور راکھ کے ڈھیر میں کوئی فرق نہیں رہتا، آرزو انسان کے ذہن کو توانائی، فکر کو ہدف اور عمل کو مہمیز دیتی ہے لیکن آرزو کی بھی کئی قسمیں ہیں: زر و مال کی آرزو، جاہ و منصب کی آرزو اور غلبہ و اقتدار کی آرزو، مگر مسئلہ یہ ہے کہ زر و مال کی آرزو غالب آجائے تو انسانیت کا قحط اور دیانت کا کال پڑ جاتا ہے۔ جاہ و منصب کی آرزو حد سے بڑھ جائے تو علم و ادب کا جنازہ اٹھ جاتاہے اور غلبہ و اقتدار کی آرزو بے کنار ہونے لگے تو انسانی شرف و وقار ختم ہوجاتا ہے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی آرزو زندہ بھی ہے اور پاکیزہ بھی، زر ان کی نظر میں معتبر نہیں، جاہ کوپرِ کاہ سمجھتے ہیں اور غلبہ ان کا مسئلہ نہیں، وہ میر و وزیر نہیں، دل میں سلطنتِ عشق کے فقیر اور رازِ الفت کے سفیر بننے کی آرزو پالتے ہیں، محترم ریاض حسین چودھری انہی بیدار بخت لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی آرزو بڑی مختصر مگر بہت ہی معتبر ہے۔ آرزو تو ایک ہے البتہ اس کے اظہار کے پیرائے متعدد اور اسالیب متنوع ہیں۔
چودھری صاحب برسوں سے نعت کہہ رہے ہیں بلکہ جہانِ نعت میں جی اور فضائے نعت میں سانس لے رہے ہیں۔ ان کا قلم کسی بادشاہ کے قصیدے اور کسی رہنما کے سہرے سے آلودہ نہیں ہوا۔ جب زبان کھلی، نعت کی کلی چٹکی اور جب قلم اٹھا نعت کا منظر ابھرا۔ بیسویں صدی کی آخری طویل نعت ’’تمنّائے حضوری‘‘ ایک آرزو ہے جو لہجہ بدل بدل کر سامنے آتی ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہ اندازِ طلب پسند آجائے، فقیر طالب تو ایک ٹکڑے کا ہوتا ہے مگر مانگتا وہ الگ طریقے سے ہے کہ شاید سخی کو کوئی قرینۂ التجا بھا جائے۔ ’’تمنائے حضوری‘‘ کا مرکزی موضوع درِ رسالت کی بازیابی، بارگاہِ نبوت کی حاضری اور حضور ﷺ کی غلامی ہے۔ ہر بند کا پہلا مصرعہ ہے:
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تو کیا ہونا چاہیے تھا؟ اگلے تینوں مصرعے پلٹ پلٹ کر ایک ہی آرزو کے مظاہر ہیں، کبھی کہتے ہیں:
میری فریاد مری نعت کا بنتی پیکر
دشتِ طیبہ کا میں اک آہوئے بسمل ہوتا
کبھی یوں قلم مچلتا ہے:
کلکِ جامی سے مجھے عشق کی ملتی دولت
نعتِ سعدی کی میں دلکش سی رباعی ہوتا
کبھی اس طرح صدا لگاتے ہیں۔
یا چمن زارِ ثناء خوانی کی ہوتا شبنم
یا چراغِ شبِ تذکارِ مدینہ ہوتا
اور کبھی یہ انداز طلب اپناتے ہیں۔
انؐ کے قدموں سے لپٹ جاتا بوقتِ ہجرت
ریگِ صحرا کا چمکتا ہوا ذرّہ ہوتا
’’تمنائے حضوری‘‘ ایک جرعۂ سلسبیل ہے جس کا رنگ اور ذائقہ منفرد اور جس کی خوشبو اور مٹھاس جداگانہ ہے۔ یہ ایک تجلیٔ نور ہے جو بہت دور تک زندگی اور روشنی کو ہم آغوش کیے رکھتی ہے اور یہ وہ آرزو ہے جو زندگی کو تقدس اور جواز فراہم کرتی ہے۔