زرِ معتبر : حب نبیؐ کی پہنائیوں کا مرقع… پروفیسر محمد اکرم رضا- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

زرِ معتبر : ہجر و فراق، عصری رجحانات، استغاثہ، اور حبِ نبی کی پہنائیوں کا مرقع

پروفیسرمحمد اکرم رضا

(جناب محمد اقبال نجمی نے اسے مفیض نعت تبصرہ نمبر میں شائع کیا)

’’زرِ معتبر‘‘ معروف نعت گو شاعر ریاض حسین چودھری کا خوبصورت نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ ریاض حسین چودھری کی نعت گوئی ایک عرصے پر محیط ہے۔ اس مجموعہ نعت کی ضخامت 288 صفحات ہے۔ سال اشاعت 1995ء ہے جبکہ اسے عمر پبلی کیشنز اردو بازار نے بڑے حسن اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ریاض حسین چودھری نعت کے حوالے سے ایک معتبر نام رکھتے ہیں۔ ان کی نعتیں فکری و فنی لوازم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے رجحانات کی نمائندہ بھی ہیں۔ یہ ان کا وصفِ خاص ہے جو ان کے کلام کا امتیاز بن کر ابھرتا ہے۔ ’’پیشوائی‘‘ کے عنوان سے حفیظ تائب دیباچہ میں ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ریاض حسین چودھری کی نعت میں اس قدر تسلسل، ایسی گہری وابستگی، اتنی تازگی و شگفتگی اور اس درجہ وسعت وندرت ہے کہ اس کی خوبیوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ پھر اس کتاب میں شاعر کا اپنا مقدمہ ’’تحدیث نعمت‘‘ ایسا نثری شہ پارہ ہے جس میں نعت اور اس کتاب نعت کے بارے میں ایسا جامع بلیغ اور دلکش محاکمہ پیش کردیاگیا ہے جوکسی اور کے کچھ کہنے کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ ‘‘

’’تحدیث نعمت‘‘ کے جس ادب پارے کی طرف حفیظ تائب نے اشارہ کیا ہے۔ اس کی آخری سطور ملاحظہ ہوں۔ ‘‘

’’ایک عجیب سی تمنا دل میںمچلتی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی سپاس گزاری کا یہ سلسلہ جاری رہے اور حشر کے دن جب ہجوم تشنہ لباں میں مَیں بھی گم صم کھڑا ہوں تو حضور ﷺ فرمائیں کہ آئو ریاض، آج بھی کوئی نعت سنائو اور مَیں بڑھ کر اپنے آقا ﷺ کے قدموں کو تھام لوں‘‘۔ شائد نعت کے نور میں گم ہوجانے ہی کی تمناہے جو ریاض سے کہلواتی ہے۔

میں ایک شاعرِ گمنام ہوں مرے آقاؐ

تری ثنا کی مرے ہاتھ میں بھی مالا ہے

مجھے خود اپنے تشخص کی کیا ضرورت ہے

ترا حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے

ریاض حسین چودھری نعت گوئی کے حوالے کو اپنی پہچان اور اپنا اعزاز قرار دیتے ہیں اور اسی حوالے کے اعتبار سے زندگی سے لے کر قبر اور حشر تک دربارِ رسول ﷺ میں اپنی پذیرائی کے تمنائی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اور بجا طور سمجھتے ہیں کہ مدحتِ سلطان مدینہ ﷺ ان کی ابدی سرخروئی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہی جذبہ، یہی لافانی تڑپ، یہی عشق و سرمستی کی کیفیات ان کی نعت گوئی کے فن سے انوار کی کہکشاں لٹاتی ہوئی ابھرتی ہیں۔ احمدندیم قاسمی نے اپنے فلیپ میں بجا طور پر لکھا ہے۔

’’ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ جب نعت کا آغاز کرتے ہیں تو ان پر وارفتگی اور سپردگی کی ایسی کیفیت چھا جاتی ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک جاری رکھنا چاہتے ہیں اور نعت یانعتیہ نظم یا نعتیہ قصیدے کے انجام تک پہنچانے کو ان کا جی نہیں چاہتا۔ یہ کیفیت حضور ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ انتہائی محبت اور انتہائی عقیدت کی غماز ہے۔ ‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میںریاض کے جس جذبہ وارفتگی اور احساس خود سپردگی کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ یہ اشعار اس کی خوب ترجمانی کررہے ہیں۔

میں ان کے نقش پا کو منزل جاں کیوں نہ ٹھہرائوں

سرِ افلاک بھی چرچے ہیں جن کی انتہائوں کے

ریاض اپنے لبوں پر ناز فرمانے کے دن آئے

کہ لہرائے گئے ہیں جام رحمت کی گھٹائوں کے

’’زرِ معتبر‘‘ میں ریاض حسین چودھری نے عصر حاضر کے مسائل کی ترجمانی کی ہے۔ اپنے آقا و مولا ﷺ کو امت اسلام پر وارد ہونے والے غموں کا فسانہ سنانے کی سعی کی ہے اور پُر درد لہجہ میں سرکار ﷺ سے امت اسلام کی بدحالی کو دور کرنے کی دعا کی ہے۔ یہ استغاثہ ایک دو نعتوں تک محدود نہیں بلکہ درجنوں نعتوں میں اس استغاثۂ اسلام کا کرب محسوس کیا جاسکتا ہے۔

حضورؐ اپنے غلام زادوں کو اذن بخشیں گزارشوں کا

فصیلِ شہرِ دعا پہ میری صدا بھی آکے ٹھہر گئی ہے

یا محمد ﷺ ! اجازت اگر ہو مجھے تو رقم میںکروں ظلم کی داستاں

چشم تر میں جو محفوظ ہیں اب تلک آنسوئوں کے وہ موتی گراتا چلوں

ریاض حسین چودھری تصور مدینہ سے سرشار رہتے ہیں۔ ذکر مدینہ چھڑتا ہے تو آنکھوں سے آنسوئوں کے گہرہائے گرانما یہ ٹپکنے لگتے ہیں۔ قلم کی نوک سے ہجر و فراق کی داستان چھڑنے لگتی ہے۔ مدینہ طیبہ کے ذرات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہاں کی فضائوں ہوائوں کو آواز دیتے ہیں۔ وہاں کے پرکیف ماحول میںجذب ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ مدینہ طیبہ کی مٹی کی عظمتوں کو سلام نیاز پیش کرتے ہیں۔ عجیب کیفیت ہجر ہے جو ان کے افکار سے نعت و مدحت کے گلہائے سدا بہار سامنے لاتی ہے۔ حضور ﷺ کی محبت آپ کی اطاعت، آپ کے نام پر مر مٹنے کا جذبہ آپ کے عشق اور ناموس پر فدا ہوجانے کی آرزو، سیرت سرور کونین کو آبروئے زندگی سمجھنا اور اسی سیرت کے گلشن سے زمانے کی تازگی اور روحانی شادابی کا اہتمام کرنا، یہ وہ امتیازات ہیں جو زرِ معتبر کا حسن و جمال بن کر اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔

رہتی ہے ہر گھڑی مجھے طیبہ کی جستجو

چنتا نہیں ہوں میں کبھی سود و زیاں کے پھول

تری سیرت کی خوشبو سے مشامِ آرزو مہکے

رہے انوار سے تیرے سبھی کا آشیاں روشن

یہی پہلا سبق ہے مکتب عشق و محبت کا

حضورِ حسن جا کر بے زبان و بے نشاں رہنا

حریمِ شعر میں تیرے سوا سجتا نہیں کوئی

حدیثِ عشق و مستی کا تو ہی عنوان ہے آقاؐ

غبارِ راہِ محبت سے دوستی کی ہے

تری ثنا کے لیے وقف زندگی کی ہے