ریاض کی نعت کے رموزِ عشق کی پڑتال: سلطان ناصر- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

سلطان ناصر۔ دربار حضرت سلطان باہوؒ

ریاض کی نعت کے رموزِ عشق کی پڑتال

وحی الہٰی کا آغاز کلمہ ’’اقرأ‘‘ سے ہونا کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ رب حکیم کی حکمتوں کا غماز ہے۔ نبی امی ﷺ کے قدمَین مبارک سے علم و حکمت کے جو سوتے پھوٹے انہوں نے جہاں بھر کے بنجر سینوں کو سیراب کیا۔ قرآن کریم نے تفکر، تدبر اور سیر فی الارض کا جابجا درس دیا۔ حدیث مبارکہ میں کہیں طلب علم کو مسلمانوں کے لیے لازم فرمایا گیا تو کہیں مہد سے لحد تک حصولِ علم کا درس دیا گیا۔ کہیں علم کے لیے چین تک کے دشوار گزار سفر کی ترغیب دی گئی تو کہیں پڑھنا لکھنا سکھانے پر جنگی قیدیوں کو بھی آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ نتیجتاً امت مسلمہ کے روشن ستارے علوم و فنون کے افلاک پر کئی صدیوں تک جگمگاتے رہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف موجودہ علوم و فنون کو قابلِ قدر ترقی بخشی بلکہ کئی نئے علوم متعارف بھی کرائے۔

علوم دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی تہذیب سے مخصوص نہیں بلکہ ہر قوم نے ان سے استفادہ کیا ہے، جبکہ دوسرے وہ جن پر کوئی ایک قوم یا تہذیب خاص دسترس رکھتی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اپنے عہدِ زرّیں میں نہ صرف عمومی علوم مثلاً فلسفہ اور سائنس وغیرہ میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں بلکہ بعض نئے علوم کی طرح بھی ڈالی۔ ان مخصوص علوم میں علمِ اسماء الرجال، خطاطی اور نعت گوئی وغیرہ شامل ہیں (خطاطی کی روایت اگرچہ دیگر تہذیبوں میں بھی ملتی ہے مگر جس اہتمام سے اسے ملتِ بیضا نے اختیار کیا ہے اُس نے گویا اِسے مخصوص علوم کی صف میں شامل کردیا ہے)۔ نعت نگاری بھی امت مسلمہ کا عالمی علم و ادب کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ نعت بیک وقت علم بھی ہے، فن بھی اور جمالیاتی خزینہ بھی۔ زیرِ نظر سطور میں نعت کی اِن تینوں جہات پر جناب ریاض حسین چودھری مرحوم (1941ئ۔ 2017ئ) کی نعت نگاری کے حوالے سے اجمالی کلام کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر اس سے قبل مرحوم کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات اور قلبی تعلق کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

یہ 8 نومبر 2014ء کی ایک سہانی شام کا واقعہ ہے۔ سیالکوٹ کے انوار کلب میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تقریباتِ یوم اقبالؒ کے سلسلہ میں مشاعرہ انعقاد پذیر تھا۔ ملک بھر سے سینئر شعرا اسٹیج پر موجود تھے اور آصف بھلی صاحب نقیب محفل تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کے بعد ریاض حسین چوہدری مرحوم کو دعوت دی گئی کہ وہ شہرِ اقبال (سیالکوٹ) کی نمائندگی کرتے ہوئے ہدیہ نعت پیش کریں۔ اُن کی شخصیت میں متانت اور وقار ایک ایسی جمالیات میں گُندھا ہوا تھا جو عشاق کا خاصہ ہے۔ مجھے سیالکوٹ میں تعینات ہوئے ایک سال گزر چکا تھا اور اس روز مرحوم سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے یوم اقبال کی مناسبت سے جو دو اشعار سنائے وہ اس لطیف رشتہ کے غماز تھے جو ہر محب کے دل کو محبوب کی چوکھٹ سے جوڑے رکھتا ہے۔ ہر محبت کرنے والا اپنے ہی نرالے انداز میں محبوب سے کوئی رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ شہرِ اقبال کے اس عاشقِ صادق کی زبانی عرضِ حال سنیئے:

اقبال کی زمیں سے حرم کی زمین تک

اشکوں نے جو کیا ہے چراغاں قبول ہو

جھوم کے اُٹھے گھٹا ارضِ محمد سے ریاضؔ

شہرِ اقبال کی مٹی کا مقدر جاگے

اِن دو اشعار کے بعد انہوں نے اپنی معروف طویل غزلیہ نعت کے چند اشعار سنائے جس کا مطلع یوں ہے:

برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح

حضورؐ، میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح

اِس مطلع میں ایک خاص درد ہے جسے وہ لوگ خوب محسوس کرتے ہیں جنہیں نسل در نسل دولتِ عشقِ مصطفی ﷺ حاصل رہی ہو۔ چند ماہ بعد برادرم محمد افضل بٹ (چیئرمین زاویہ فورم سیالکوٹ) میرے پاس آئے اور مجھے ریاض حسین چوہدری مرحوم کے مشفقانہ دستخط کے ساتھ اُن کا نعتیہ مجموعہ ’’غزل کاسہ بکف‘‘ تحفہ پہنچایا۔ اس مجموعہ کے سرورق پر اُسی نعت کے اشعار درج تھے جو مشاعرہ میں سنے گئے تھے۔ انہی دنوں مجھے پہلی بار بیت اللہ عزوجل و بیت الرسول ﷺ کی حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ میں نے اپنے بڑوں سے سن رکھا تھا کہ مسجدِ نبوی ﷺ میں اصحابِ صفہ کے چبوترے سے پرے صحن میں ایک مقام ہے جہاں ہمارے گھرانے کے اکابر بیٹھا کرتے تھے۔ اس مقام پر بیٹھنے میں کئی رمزیں ہیں۔ پہلی رمز یہ کہ یہاں سے حجرہ اقدس نظر کے سامنے ہونے کے باوجود قدرے فاصلے پر ہے، بمصداق

دور بیٹھا غبارِ میرؔ اُس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

دوسری رمز یہ کہ یہاں بیٹھ کر تلاوتِ کلام مجید یا وردِ درودِ پاک کرتے ہوئے جونہی نگاہوں کو طلب نظارہ ہو سامنے دیکھئے اور سنہری جالیوں کے منظر سے روح کو سیراب کیجئے۔ پھر نظر کو ذرا اور اٹھایئے اور سبز گنبد کی ہریالی سے من کی پیاس بجھایئے۔ آنکھوں کی بنجر زمینوں میں فوراً جل تھل ہوجائے گا۔ اب چاہیں تو تلاوتِ کلام مجید سے دانش کو تیز کریں یا درودِ پاک سے محبت کو مہمیز کریں۔ تیسری رمز یہ کہ یہاں سے بیٹھے ہوئوں کے لیے سمتِ کعبہ اور سمتِ کعبہ ٔ کعبہ ایک ہی ہے لہٰذا عشاق کو دربانوں کے تُند و تیز جملوں سے بچنے کا حیلہ مل جاتا ہے۔ خیر، مجھے اس مقام پر قیام کی سعادت ملی تو کئی بار یوں ہوتا کہ درودوں کے پھولوں کو آنسوئوں کے دھاگوں میں پروکر، گجرے بنا بنا کر آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرتا اور عرض کرتا کہ حضور ﷺ اپنے غلام ابنِ غلام ابنِ غلام کا نیاز قبول ہو۔ ان مواقع پر مجھے ریاض حسین چودھری مرحوم کا وہی شعر یاد آتا اور اسے بارگاہِ اقدس میں پیش کیا کرتا۔

برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح

حضورؐ، میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح

اوپر مَیں نے کہا تھا کہ نعت بیک وقت علم بھی ہے، فن بھی اور جمالیاتی خزینہ بھی۔ آیئے اب ریاض حسین چوہدری مرحوم کی نعت گوئی میں اِن امور پر بات کرتے ہیں۔

ریاض حسین چوہدری مرحوم کی نعت میں استغاثہ، بیانِ شمائل، اظہارِ محبت اور تمنائے حاضری و حضوری تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ قاری کو اچھا خاصا علمی مواد بھی مل جاتا ہے۔ عقائد و اعمال کے مسائل کا نقلی و عقلی استدلال نہایت دلنشین پیرائے میں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر طویل نظم ’’طلوعِ فجر‘‘ قابل ذکر ہے جس میں پانچ سو بند ہیں اور ہر بند 12 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ 12 کے عدد کا تعلق ظاہر ہے کہ 12 ربیع النور سے ہے اس طویل نظم کا ہر بند اس مصرع سے کھلتا ہے۔

افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ

یہ نظم کیا ہے گویا جشنِ ولادت حبیب ﷺ کا ایک ترانہ ہے جس میں جابجا عقائد و اعمال کی وضاحتیں دلائل و براہین کے ساتھ نظم کی گئی ہیں۔ اُن کی عقیدت و محبت گویا علمیت میں گُندھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نعت کمالِ مودّت میں بھی حزم و احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتی۔

ہمارے ممدوح ریاضِ نعت میں اپنے عجز کے ساتھ فنی طمطراق لیے داخل ہوئے۔ وہ اوزان و بحور پر گرفت رکھنے والے غزل کے ایک پختہ کار شاعر تھے۔ اُن کا فلسفۂ نعت گوئی ہی ایسا تھا۔ ’’پاک شو اول و پس دیدہ برآں پاک انداز‘‘ کے تحت بزرگوں نے جس طرح بارگاہِ اقدس میں حاضری سے قبل خود کو پاک کرنے کی شرط رکھی ہے اسی طرح ریاض حسین چوہدری مرحوم کے نزدیک ریاض نعت میں داخل ہونے سے قبل خود کو خوشبوئے فنِ شعر سے معطر کرلینا لازم ہے۔ ’’غزل کاسہ بکف‘‘ کے پیش لفظ میں کچھ یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

’’حریمِ غزل تو نعت گو کا تربیتی کیمپ ہے جہاں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے کہ جب شاعر بارگاہِ حضور ﷺ میں دل کے آبگینوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے تو اس کا تخلیقی وجود بھی اد ب و احترام اور شعری وژن کے احرامِ مقدسہ میں لپٹا ہوا ہو۔ چمن زارِ غزل میں جذبات و احساسات کی حنا بندی کے بغیر منصبِ نعت سنبھالنا بہت بڑی ادبی جسارت ہے۔ اس بے ادبی کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔ ‘‘

اُن کے ہاں فنی طمطراق تو ہے مگر آوُرد کا کہیں گمان نہیں ہوتا۔ ملمع کاری کاکوئی شائبہ نہیں۔ یہ ایک دشوار مقام ہے کہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوں اور مصنوعی پن بھی نہ ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب نعت گو بطورِ شاعر فن کی بھٹی میں پک کر نکلے اور بطور امتی اپنے آقا ﷺ سے والہانہ محبت رکھتا ہو۔ اشعار از دل خیزد و بر دل ریزد کی مثال ہیں۔ قلم میں ایک عجیب روانی ہے۔ اُن کی طویل نعتیہ نظمیں اور صنفِ غزل میں دو نعتیہ، سہ نعتیہ، چہار نعتیہ اور ہشت نعتیہ اس دعویٰ کی دلیل ہیں۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

اس روانی کے متعلق خود کہہ گئے ہیں۔

فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا

مرا قلم بھی ہے جبریلؑ کے پروں کی طرح

ریاض حسین چوہدری مرحوم کی نعت میں علمیت اور کمالِ فن ہی نہیں بلکہ جمالیاتی تاثر کا بھی کمال وفور ہے۔ عالمانہ دانش اور فنکارانہ مہارت کی خاک جب جمالیاتی پانی میں گُندھی جاتی ہے، تب کہیں جاکر یہ کوزہ گری مکمل ہوتی ہے۔ اللہ جمیل ویحب الجمال۔ اور پھر جسے صاحب الجمال ﷺ کی محبت نصیب ہوجائے اس پر حسن و جمال کے خزانے کیوں نہ کھل جائیں۔ ذیل میں ایک بند پیش کیا جاتا ہے جس میں ہمارے ممدوح اپنا فلسفۂ نعت پیش کرتے ہیں۔ اِس کا جمالیاتی تاثر بھی ملاحظہ ہو۔

نعت کیا ہے، لب بہ لب طیبہ کے میخانے کا نام

نعت کیا ہے، آنسوئوں کے رقص میں آنے کا نام

نعت کیا ہے، لوحِ دل پر پھول بکھرانے کا نام

نعت کیا ہے، اُن کی چوکھٹ پر مچل جانے کا نام

نعت کہنے کے لیے دل پاک ہونا چاہیے

غرقِ الفت دیدۂ نمناک ہونا چاہیے

نعت کیا ہے، وادیء شعر و سخن کا افتخار

نعت کیا ہے، خوشبوئوں کا صحنِ گلشن میں نکھار

نعت کیا ہے، رات کے پچھلے پہر کا انکسار

نعت کیا ہے، اک عطائے رحمتِ پروردگار

دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفی تو نعت ہو

حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو

دعا ہے کہ رب العالمین عزوجل بطفیلِ رحمۃ للعالمین ﷺ ریاضِ نعت کے اس گلِ رعنا کی قبر کو خوشبوئے مدینہ سے معطر رکھے۔ آمین