جدید تخلیقی طرز احساس کا شاعر … راجا نیر، روزنامہ الشرق- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
میری زبان پر بھی شبنم درود کی ہے
مرا قلم انہیؐ کا، نطق و بیاں انہیؐ کا
نعتیہ شاعری کا آغاز نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں ہوگیا تھا۔ نعتیہ ادب اول و آخر عشق رسالت مآب ﷺ کے باعث لمس تخلیق سے آشنا ہوتا ہے۔ آپ کے عہد میں حضرت حسان بن ثابتؓ و کئی صحابہ کرامؓ نے آپ کی ذات مبارکہ کے عشق کی بدولت نعتیں کہیں اور آپ ﷺ خود ان کی نعتیں ذوق و شوق سے سماعت فرمایا کرتے تھے۔ نعت نگاری کی یہ حسین روایت اردو شاعری کی ابتدا ہی سے اردو شاعری کرنے والے شعرا کے ذہنِ رسا سے پھوٹنے لگی اور تاحال نعت نگاری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عہد حاضر میں ریاض حسین چودھری کا نام چند اہم نعت گو شعرا کے ساتھ سرِ فہرست لیا جاتا ہے۔ اب تک ریاض حسین ہیں اور انہیں جدید نعت گو شاعروں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ریاض حسین چودھری شہر اقبال سیالکوٹ میں رہائش پذیر ہیں۔
ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے جناب حفیظ تائب نے ان کے نعتیہ مجموعے ’’رزق ثنائ‘‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’جدید اردو نعت کا کوئی مختصر سے مختصر تذکرہ بھی ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کا بھرپور حوالہ دیئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ان کا شمار عہد جدید کے صفِ اول کے نعت نگاروں میں ہوتا ہے۔ ریاض حسین چودھری نے نہ صرف جدید نعت میں افکار تازہ کی نمود کے مقفل دروازوں کو کھولنے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ مضامینِ نعت کو شعورِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ایک ایسا اجتہادی کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے جو لمحہ موجود میں ہی نہیں دَورِ آئندہ میں بھی تشکیک و ابہام کی گرد آلود فضا میں مینارہ نور ثابت ہوگا۔ ‘‘
حفیظ تائبؒ کے ان خوبصورت اعترافی جملوں کے بعد ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری سے والہانہ وابستگی اور ان کی نعتوں میں شامل ہنر دری، جدید حسیت اپنا آپ منوانے کے لیے کافی ہے۔ معروف شاعر و محقق جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے یوں اظہار کیا ہے
’’ریاض حسین چودھری کی نعت بنیادی طور پر اس والہانہ جذبے سے عبارت ہے جو ان کے لیے زاد سفر اور وسیلہ بخشش جامیؒ و بوصیریؒ و رضاؒ کے قبیلے سے مربوط کرتا ہے۔ تاہم اس جذبے میں عصری مسائل کے شعور اور آشوبِ ملت کے احساس کا وہ موثر امتزاج بھی شامل ہے جو انہیں آج کے ایوان نعت میں نمائندہ حیثیت عطا کرتا ہے۔ ‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید طرز احساس اور طرز بیاں کس طرح واضح ہوتا ہے، تو اس پر تھوڑی سی توجہ دینے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نعت خوانی کے تمام تر معاشی ثمرات اپنی جگہ، تاہم ان میں شامل اشعار بھی کسی حد تک عام آدمی کے جذبات و احساسات کو ماسوا گرمانے کے تخلیقی سطح پر کچھ بہتر عملی صورت سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ جبکہ عشق رسول ﷺ میں ڈھلے بے لوث غلام نعت گو شاعر اپنے نعتیہ اشعار میں نبی کریمؐ کی حیات طیبہ، سیرت مبارکہ، احادیث کے حوالے اور قرآن کریم میں بیان کیا گیا سرکارِ دو عالم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بیان کرکے جس مقام سرفرازی و سرشاری سے گزرتے ہیں وہ دنیا داروں کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ ریاض حسین چودھری بھی ایسے کمٹڈ شاعر ہیں کہ جنہیں دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو اللہ کے فرمان کی بجا آوری کے لیے اپنے آقاؐ کی تعریف کرنے اور ان کی امت کے مسائل اور دکھ درد کے حل کے لیے ملتجانہ انداز میں ان تک نعتیہ اشعار کے ذریعے عرض گزارتے رہتے ہیں۔
چراغ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں
مرے آنگن کی چڑیاں بھی درود پاک پڑھتی ہیں
یہ ہے وہ جدید تخلیقی طرز احساس جو عہد حاضر میں نعتیہ اشعار میں ریاض حسین چودھری یوں اپنے احساسات و جذبات بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قطعہ
قلم ازل سے مقرر مرا ثنا پر ہے
کرم، رسول مکرمؐ کا بے نوا پر ہے
در حضور کو چوما ہے میں نے پلکوں سے
مرا نصیب بلندی کی انتہا پر ہے
سوائے نعت کے میرا حوالہ اور کیا ہوگا
مری پہچان بس حرف ثنا ہے یارسول اللہ
میرے آنگن میں بسیرا کیا کرے گی تیرگی
میں اٹھا لایا ہوں طیبہ سے شریعت کے چراغ
عمر طویل اس لیے مانگی ہے اے خدا!
اشعار نعت لاکھوں کروڑوں رقم کروں
اڑتی رہتی ہیں درودوں کی سنہری تتلیاں
بادلوں کو حکم دے جنگل پہ برسیں ٹوٹ کر
اے خدا! رکھنا غریبوں کی سلامت جھگیاں
مجھے محسوس ہوتا ہے ابھی تک ہوں مدینے میں
حروف التجا کا ذائقہ میری زباں میں ہے
مرے آقاؐ کی عظمت کا تصور ہی نہیں ممکن
خدا کے ساتھ اسم مصطفیؐ حرف اذاں میں ہے
ریاض حسین چودھری کے درج بالا اشعار میں ان کی درد مندی، حضور سے والہانہ محبت، عاجزی، وارفتگی اور عصری شعور کی بے پناہ بصیرت کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے بے اختیار زبانِ دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ بحیثیت شاعر جب ہم ان کا نعتیہ کلام پڑھتے ہیں تو حقیقتاً انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے منفرد مضامین خیال کی نویکلتا، زبان و بیان کی تازگی، لب و لہجے کی ندرت کیا کچھ ہے جو نعتیہ شاعری کے باب میں نوواردوں کے لیے رہنمائی اور شرف توقیر کا باعث ٹھہرتا ہے۔
میں برادر محترم زاہد بخاری کا ممنون ہوں کہ ان کی وساطت سے زم زمِ عشق کا نسخہ میسر آیا اور میں نے بھی ریاض حسین چودھری کے تازہ مجموعے سے پھوٹنے والی روشنی کے سبب روحانی و قلبی حرارت پالی۔
ریاض حسین چودھری کے اس مجموعہ ’’زم زم عشق‘‘ پر ایک طویل مضمون لکھنے کی سعادت حاصل کرنے کے وعدے کے ساتھ آپ کی نذر ریاض حسین چودھری کی ایک نعت:
کتابِ مدحتِ سرکارؐ پر ابرِ کرم برسے
ورق کا چوم کر ماتھا محبت کا قلم برسے
کرم کے پھول مہکیں دیدہ و دل کے گلستاں میں
مطافِ کعبۂ دل پر چمن زارِ حرم برسے
ظہورِ عظمتِ ماضی کے دن پھر لوٹ کر آئیں
پیمبرؐ کے غلاموں پر وہی جاہ و حشم برسے
کئی بوجہل پیدا ہورہے ہیں اس زمانے میں
عدوئے سرورِ کونینؐ پر خاکِ عدم برسے
خدا کے فضل و رحمت کی گھٹائیں جھوم کر اٹھیں
نبیؐ کے جاں نثاروں پر شجاعت کے علَم برسے
سوا نیزے پہ خورشیدِ قیامت ہو تو ہونٹوں پر
درودوں کی لیے رم جھم فضائے کیف و کم برسے
مدینے کے سفر کا ایک اک لمحہ خوشی کا ہے
کسی ویران صحرا پر گھٹائے رنج و غم برسے
بفیضِ نعتِ ختم المرسلیںؐ اے خالق و مالک
حصارِ خشک سالی میں مرے کھیتوں پہ نم برسے
جہالت کے اندھیرے جب مسلط معبدوں پر تھے
جنابِ سیدِ ساداتؐ کے نقشِ قدم برسے
بہت افسردہ تھا شاعر، بہت بے تاب تھا شاعر
یکایک پھر تخیّل پر حروفِ محتشم برسے
طلب تجھ سے کیا جب آمنہؓ کے لالؐ کا صدقہ
کئی فضل و کرم کے پھول مجھ پر دم بہ دم برسے
ریاضؔ بے نوا اک لفظ بھی کہنے سے قاصر ہے
خدایا! اس کے ہونٹوں پر کلامِ محتشم برسے