27۔ اردو ادب کے توانا رویوں کا امتزاج … ڈاکٹر آفتاب نقوی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی شہید
ریاض حسین چودھری کی نعتیہ شاعری
اردو ادب کے توانا رویوں کا امتزاج
اقبال کی زمیں سے حرم کی زمیں تک
اشکوں نے جو کیا ہے چراغاں قبول ہو
اپنے اشکوں کی مدد سے شہرِ اقبال کا یہ مدحت گِر رسول ﷺ ریاض حسین چودھری اپنے پیشر و اقبال کی طرح حرم کی سرزمینِ مقدس تک جو چراغاں کرنے میں مصروف ہے۔ نورِ مجسم کے نورِ مقدس کی جھلملاہٹوں سے اپنے اندر کی کائنات کو جس طرح منور کرنے میں لگا ہوا ہے اور اپنی اس نورانی مصروفیت کے وجدانی کیف و سرور کے ساتھ اس طویل تر فاصلے کو جس جرأت اور توانائی کے ساتھ آنِ واحد میں روشن کرتا دکھائی دیتا ہے یہ نصیب حوصلہ اور یہ رتبہ بقول شاعر:
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
کے بلاشبہ مصداق ہے۔ ۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ ۔ یہ دعویٰ۔ ۔ جو درحقیقت الفاظ کے خوبصورت نگینوں میںایک التجا کو سموئے ہوئے ہے ریاض کے ایک پُر درد اور محبت آشنا دل کی صدا ہے جس میں عقیدت کے پھول بھی ہیں تو محبت کی چاشنی بھی۔ ۔ ۔ التجا کا انداز بھی ہے تو حالات کی ستم ظریفی کا عکس بھی۔ ۔ ۔ چنانچہ یہی وہ ریاض کا اردو نعت میں حقیقت آشنا رویہ ہے جو اسے دورِ حاضر کے ممتاز نعت نگاروں کی صف میں کھڑا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ریاض کی نعت بلاشبہ نوجوان نسل کے نعت گو شعراء کے لیے ایک ایسا معیار فراہم کررہی ہے جس کو سینوں سے لگائے اور اپنے دل کے آبگینوں میں سجائے بغیر کوئی نعت گو حقِ نعت گوئی ادا نہیں کرسکے گا۔
ریاضؔ کی نعت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمارا اس حقیقت سے آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے کہ ریاضـؔ کو نعت گوئی کا جو شعور میسر ہے اس میں اُس کے گھریلو ماحول جو اسے ورثہ میں ملا ہے کو بطور خاص اہم مقام حاصل ہے۔ شاعر کے جاننے والے جو اس کے اہلِ خانہ سے بھی شناسا ہیں۔ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ اُس کے خاندان میں ذکرِ مصطفیؐ کی مقدس فضا ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ذکر محض خالی خولی ذکر ہی کی حد تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس کی آبیاری حبِ رسولؐ کے سے پاکیزہ جذبے سے ہوئی ہے۔ چنانچہ ریاضؔ کی اِس آبائی وراثت کو سامنے رکھا جائے توہمارے آج کے شاعر کی نعت کو سمجھنے میں خاصی معاونت ملتی ہے۔ چنانچہ اِس حقیقت کی گواہی ریاضؔ کے اس شعر سے بھی بطورِ خاص ملتی ہے جس میں وہ اپنی اس خاندانی وراثت کو اگلی نسلوں تک یوں منتقل کرتا دکھائی دیتا ہے۔
میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسولؐ
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے
اللہ اللہ کتنی معصوم اور پیاری خواہش ہے۔ اس خواہش کی عطا ہے کہ اس کے قلم سے نکلنے والا ہر شعر حبِ رسولؐ کے بحرِ بیکراں سے تخلیق کے مراحل طے کرتا ہے۔
ریاض کی نعت پر گفتگو کرتے ہوئے اگر اردو نعت کے پس منظر اور پیش منظر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو نعت میں دو رویے بطور خاص نظر آتے ہیں۔ ایک رویہ جس کے نمائندہ حضرات احمد رضا ہیں جن کی نعت میں جذب و کیف اور سرمستی کی کیفیت دیدنی ہے جبکہ دوسرا اقبالؔ و ظفرؔ کا رویہ ہے جہاں نعت ادب کے وسیع تر تناظر میں کائنات کی پوری وسعتوں کو اپنے دامن میں سموتی دکھائی دیتی ہے۔ ریاض اردونعت میں ادب کے ان دو توانا رویوں کے امتزاج سے اپنا مقام پیدا کررہا ہے جس میں کیف و سرور کے سرمدی نغمے بھی ہیں تو دور حاضرکے انسان کا کرب بھی۔ یہاں ملّی مسائل بھی ہیں تو اپنی ذات کا نوحہ بھی۔ چنانچہ یہی وہ مقام ہے جہاں وہ آج کے نعت گو شعراء بالخصوص حفیظ تائبؔ سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔
ریاض حسین چودھری ایک شاعر ہے اور اسے اس بات پر فخر ہے کہ وہ حضرت حسان بن ثابتؔ کی سنت پر عمل پیرا ہے۔ ریاضؔ چونکہ نعت کو حبِ رسولؐ کے حصول کا ایک عظیم منبع خیال کرتا ہے اس لیے پکار پکارکر کہتا ہے۔
مشامِ جاں تری خوشبو سے مہکا ہی رہے آقا
ترا شاعر ثنا کے پھول چنتا ہی رہے آقا
میں اٹھ کر رات کے پچھلے پہر لکھتا رہوں نعتیں
چراغِ دیدۂ نمناک جلتا ہی رہے آقا
شاعر کو محسنِ انسانیت اور معلمِ انسانیت سے جو والہانہ محبت و شیفتگی حاصل ہے وہ دیوانگی کی حدوںکو چھونے کے ساتھ ساتھ فرزانگی سے بھی پوری طرح لیس ہے اسی لیے تو وہ اسے اپنی پہچان گردانتا ہے اور وہ اس حقیقت پرمفتخر بھی ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ شعراء کے اس جم غفیر میں اس نے ثنائے رسولؐ کی مالاکو اپنے ہاتھوں میں سجایا ہوا ہے وہی اس کا تشخص ہے اور وہی اس کا حوالہ ہے۔
میں ایک شاعرِ گمنام ہوں مرے آقاؐ
تری ثنا کی مرے ہاتھ میں بھی مالا ہے
مجھے خود اپنے تشخص کی کیا ضرورت ہے
ترا حوالہ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے
شاعر کو اپنے اس تشخص جو اسے ایک خاص نسبت سے حاصل ہے کا بخوبی احساس ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس حوالے سے اور اس نسبت سے اگر ہم کچھ ہیں تو ہیں؎
اگر پہچان ہے کوئی تو یہ نسبت کی خوبی ہے
وگرنہ کیا مری اوقات کیا نام و نسب میرا
ریاضؔ اپنے تشخص کے لیے اتنا ہی کافی ہے
سگِ دربارِ سلطانِ مدینہ ہو لقب میرا
ایسی روح پرور اور وجدانی خواہشوں والا ریاضؔ جب مدحتِ رسولؐ کے لیے زبان کھولتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی سنت ان اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی پر عمل پیرا ہوتا ہے تو کائنات کی وسعتیں کچھ یوں سمٹ کر اس کے سامنے آجاتی ہیں جس سے وہ یہاں تک دعویٰ کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا:
بوقتِ نعت گوئی حال ہوتا ہے عجب میرا
پرِ جبریل بن جاتا ہے ہر حرفِ طلب میرا
گلابِ اسمِ احمد کیا کھِلا شاخِ دل و جاں پر
چمن میں تذکرہ رہنے لگا ہے روز و شب میرا
اردو کے جدید نعتیہ ادب میں نعت اوصاف و محاسنِ مصطفی کے اظہار سے آگے بڑھ کر آپ کی شخصیت و سیرت پر اظہار خیال کے ساتھ ساتھ عصری حقائق و مسائل کو بھی اپنے اندر کچھ اس خوبصورتی سے سموئے ہوئے ہے جس سے اس صنفِ اظہار کی بے پناہ وسعتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آج کا شاعر اور دانشور اپنے تمام ذاتی اور اجتماعی مسائل میں آپؐ ہی کی ذات کو اپنا ملجا و ماویٰ تسلیم کرتا ہے اور یہ بات محض دعوے ہی کی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ آپ سے بڑھ کر دنیا میں اور کون ہے جو انقلاب کا بانی ہو اور آپ کے انقلاب کی وسعتِ لامحدود اور رحمتیں بے شمار ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس عظیم انقلاب کو اپنوں اور غیروں سبھی نے تسلیم کیا ہے۔ ریاض بھی اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے:
آدمی تھک ہار کر اُن کو پکارے گا ریاضؔ
اُن کے دامانِ کرم کی انتہا بھی دیکھنا
میں ذکر کررہا تھا کہ دورِ جدید میں نعت نے اپنے آپ کو ایک توانا اور بھرپور صنف اظہار کے طور پر منوالیا ہے اور اب شعراء اس کے ذریعے سے اپنا مافی الضمیر اور اپنی ذات کا بھرپور اظہار کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے تو ہم دورِ جدید کو نعت کا دور کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عہد میں نعت نے جہاں نہ صرف مقبولیت کی آخری حدوں کو چھولیا ہے وہاں ترقی و ارتقا کی منازل بھی تیزی سے طے کی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں بعض اطراف سے نعت کے تقدس کو دھچکا بھی لگا ہے جس سے مبہم اور بلا مقصد موضوعات اس میں در آئے ہیں۔ میرا مقصود یہاں مثالیں پیش کرنا نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہے کہ ریاضؔ نے نعت میں اپنی فکر کی جولانیوں کے باوجود تقدس رسالتمآبؐ کو بھی پیش نظر رکھا ہے چنانچہ یہاں ہمیں اعتدال اور میانہ روی کی دلنواز کیفیت ملتی ہے کیونکہ ریاضؔ کی نعت بقول ریاضؔ کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔
حمدِ خدا سے کرتا ہوں آغاز نعت کا
اپنی زباں کو کیوں نہ اُسی کی زباں کہوں
ریاض غزل کا بھی قد آور شاعر ہے، اس لیے اس کی نعت میں غزل کا مکمل رچائو بھی دیدنی ہے۔ وہ مضامینِ غزل کو جب نعت کے سانچے میں ڈھال کو پیش کرتا ہے تو وہاں بھی شستگی اور تقدس کی کیفیت عام دکھائی دیتی ہے۔
یہ روز و شب کی بے تابی یہ لطفِ جاوداں کیا ہے
بجز عشق نبیؐ میری ان آنکھوں سے رواں کیا ہے
یہ کیسا رتجگا ہے میری غزلوں کے شبستاں میں
مرے کشکولِ فن میں یہ غبارِ نقد جاں کیا ہے
میسر ہو جسے اپنے نبی کے نام کی رم جھم
پھر اُس کے واسطے کالی گھٹا کا سائباں کیا ہے
ریاض جدید عہد کا شاعر ہے اس لیے وہ غزل کی ہیئت و اسلوب کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اِس کا قیدی بنائے رکھنا ضروری خیال نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے اظہار کے لیے آزاد نظم میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے۔ چنانچہ نعت اُس نے آزاد نظم میں بھی کہی ہے اور خوب کہی ہے۔ میں مضمون کی طوالت کے خوف سے ریاضؔ کی نعت کے اس پہلو کے متعلق زیادہ گفتگو تو نہیں کروں گا البتہ اس کی ایک طویل نعتیہ نظم سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس میں اس نے انسان کے ہاتھوں انسان پر ہونے والے جبر کی کچھ اس طرح وضاحت کی ہے۔
حضور خوف کا غلبہ ہے اس قدر اب کے
کہ مقتلوں سے کسی کی صدا نہیں آتی
رکھے ہوئے ہیں جنازے ہوا کے کندھوں پر
بجھے بجھے سے جلوسوں میں ماتمی چہرے
میں جس طرف سے بھی توڑوں حصار ظلمت کا
شبِ سیاہ کی دیوار سامنے آ کر
مرے شعورِ سحر سے خراج لیتی ہے
فصیلِ شب پہ جلائے نہیں کسی نے چراغ
لہو کا کھیل ابھی مقتلوں میں جاری ہے
سکون و امن کی اب روشنی نہیں ملتی
’’حضورؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی‘‘
ریاض اپنے آقا و مولیٰ کے حضور گلہائے نعت پیش کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ اُس کی منزل کیا ہے اس کا تعین تو وقت ہی کرے گا لیکن ریاض کے ایک قاری کی حیثیت میں یہ بات بلاشبہ پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی نعت جس طرح ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اُس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ جدید اردو نعت کا ایک ایسا گل سرسبز ہے جس کی بھینی بھینی خوشبو سے اردو ادب کا مشامِ جاں ہمیشہ معطر رہے گا۔