26۔ کلاسیکی اور عصری نعت کے تلازمات … عاصی کرنالی- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

19-9-2017

کلاسیکی اورعصری نعت کے تلازمات

رزقِ ثنا کے حوالے سے

ریاض حسین چودھری کا شمارہمارے عہد کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ نعت گوئی ان کے تاجِ فن کا ایک ہمیشہ سے تاب موتی ہے جس کی درخشانی اور ضوریزی وقت کے دائرے میں محدود نہیں ہے۔

ریاض حسین چودھری کی نعت میں وہ تمام فنی اور معنوی تلازمات ہمیں نظر آتے ہیں جو روایت سے جدت کی جانب سفرِ ارتقا کرتے ہوئے عصری نعت میں ہونے چاہئیں۔ کلاسیکی نعت شخصی احوال نگاری کا منظر نامہ ہے۔ عشق و عقیدت کا زمزمہ ہے۔ ذاتی ہجر و ناصبوری اور مشتاقی و حضوری کا اظہار ہے۔ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے جمالیاتی مظاہر کی آئینہ داری سے معمور اور حضورؐ کے محامد ومحاسن کے تذکارِ جمیل سے متجلی ہے۔ آج کی نعت جہاں روایت کے مذکورہ بالا اجزا و صفات سے پردامن ہے، وہیں امت کے اجتماعی احوال و مسائل کی عکاس اور ترجمان بھی ہے۔ یعنی عصر حاضر میں نعت ذات اور اجتماعیت دونوں پہلوئوں اورجہتوں کی نمائندگی کررہی ہے اور اس محبوبِؐ خدا اور ممدوحِ کائناتؐ کی شانِ محبوبیت اور مراتبِ ممدوحیت کی وصاف ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں پیغمبرِ عمل و انقلابؐ اور ہادیٔ انسانیتؐ کے طور پر بھی پیش کررہی ہے۔ حضورؐ کے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ کاملہ کی متنوع ادائوں کے مضامین نعت نو کا مزاج ہیں تاکہ آشوب میں مبتلا امت اور آلام میں گھری ہوئی انسانیت قرار پاسکے اور ارضِ بشر محبت، امن، عدل اور آسودگی کا گہوارہ بن سکے۔ میں نعت گوئی کے اس تعارف و تعریف کے پردے میں اصل میں ریاض حسین چودھری کی نعت اور اس کے موضوعات و مضامین اور مقاصد ومطالب کی بات کررہا ہوں۔

زبان و بیاں کی نفاست، جذبے کا تقدس، خیال کی لطافت، متنوع مضامین، ممیز اسلوب، پاسداریِ آدابِ مدح و ثنا، عصری احوال و مسائل کی آئینہ داری اور سیرت طیبہ کی تبلیغ و ابلاغ، ان تلازمات کے حوالے سے اس عہد کے ایک اہم نعت گو، ریاض حسین چودھری کی رزقِ ثنا کا مطالعہ کیجئے۔