در مصطفیٰ پہ پلکوں سے دستک …طارق اسماعیل ساگر- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن

ریاض حسین چودھری کا نعتیہ مجموعہ: رزق ثنا

در مصطفیٰ ﷺ پر پلکوں سے دستک

میں آج جس عاشق رسول اللہؐ کا تذکرہ کرنے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے عرصہ پہلے نعت کیا ہے؟ کے عنوان سے لکھا تھا:

نعت کیا ہے مدحت خیر البشرؐ، خیرالوریٰ

نعت کیا ہے دونوں عالم میں محمدؐ کی ثنا

نعت کیا ہے روح و جاں میں گرمی صل علیٰ

نعت کیا ہے دل کے آئینے میں عکس مصطفیؐ

کیا کہوں رعنائیوں کا کون سا انداز ہے

نغمۂ عشق رسول پاکؐ کا آغاز ہے

رزق ثنا کا مطالعہ کرنے کے بعد ریاض حسین چودھری کے بارے میں یقین کامل ہو جاتا ہے کہ ان کا شمارغلامان مصطفیؐ میں ہوگیا ہے اور وہ جو کسی نے کہا ہے کہ

محمدؐ کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی

ریاض حسین چودھری صاحب آپ کو یہ غلامی مبارک ہو۔ ہماری شاعری میں یوں تو نعت کی روایت بڑی مضبوط اور توانا رہی ہے۔ اردو شاعری میں تو غیر مسلم شعرا نے بھی اس روایت کو اختیار کیا۔ نعت شاعری کی شاید وہ واحد صنف ہے جس میں مبالغہ آرائی کی گنجائش نہیں اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میرا ایمان یہ بھی ہے کہ نعت لکھی نہیں جاتی، عطا ہوتی ہے کیونکہ جس ذات والا صفاتؐ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ رطب اللسان ہو اس کی مدح و ثنا کوئی بندہ کرے بھی تو کیسے، بس توفیق خداوندی ہے اور یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ نعت نگاری تلوار کی دھار پر چلنے کے مصداق ہے۔ حد ادب لازم ہے۔ اس صورت احوال کو کیا خوب بیان کیا ہے۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

نعت نگار اگر بڑھتا ہے تو الوہیت تک جا پہنچتا ہے کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ افراط و تفریط ہوئی تو عظمتِ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کا مرتکب ٹھہرا اور اس بارگاہ عرش پناہ میں معمولی سی بھی بے ادبی ہوجائے تو زندگی کی جملہ عبادتیں بے اثر اور بیکار جاتی ہیں۔

نعت در مصطفیؐ پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ مدح رسولؐ میں لکھا ہر لفظ تاریخ میں سرخرو روایٔتوں کا امین ہوتا ہے۔ مسافت شعر میں یہ وہ صراط مستقیم ہے کہ جہاں قدم قدم سر کے بل چلتے ہوئے عقیدت مند جذبے ایک والہانہ وارفتگی کے ساتھ عشقِ صادق کی روایتوں سے سرشار ہوتے ہیں۔ ثنائے مصطفیؐ سمعی بصارتوں کو، بصیرتوں کو، ثروتوں سے مالا مال کردیتی ہے۔ رحمتوں کے سارے ابواب کھل جاتے ہیں۔ سرفرازیاں مقدر ہوجاتی ہیں۔ عشق تو خود امرت ہے اور جب مقصود کائنات وجہ تخلیق عالم سے دلی وابستگی کا اعزاز بھی مقدر ہوجائے تو کامرانیاں اور شادمانیاں قدم بوسی کو کیوں نہ آئیں؟ جدید اردو نعت گوئی کا ذکر ریاض حسین چودھری کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوپائے گا۔ آپ نے نہ صرف جدید نعت میں افکار تازہ کی نمود کے کئی در وا کئے ہیں بلکہ مضامین نعت کو شعور عصر سے ہم آہنگ بھی کیا ہے۔ یہ ایسا اجتہادی کارنامہ ہے جو لمحہ موجود میں نہیں، آنے والے دور میں بھی تشکیک و ابہام کی گرد آلود فضا میں مینارہ نور ثابت ہوگا۔

ریاض حسین چودھری کا پہلا مجموعہ نعت ’’زر معتبر‘‘ جدید نعت کا معتبر حوالہ تھا اور ’’رزق ثنا‘‘ میں شامل نعتیہ کلام کا تنوع ہئیت تک ہی محدود نہیں بلکہ شاعری کی سوچ کے ہر زاویئے پر محیط دکھائی دیتا ہے۔

حضورؐ طائرِ دل، دامِ خار و خس میں ہے

متاع صبر و رضا حجلہ قفس میں ہے

فصیل شام و سحر پر چراغ جلتے ہیں

یہ کس کا اسمِ منور نفس نفس میں ہے

نعت میں ایسے اشعار مالکِ ارض و سما کی خصوصی عطا ہی ہوسکتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ملے غریب پروندوں کو عافیت کی نوید

لرز رہا ہے سرِ شاخ، آشیاں آقاؐ

کبھی تو آنگن کے پیڑ اپنے بدن پہ اوڑھیں گلاب موسم

دیار ہجر و الم میں اترے کبھی تو شام وصال، آقاؐ

اب کربلائے عصر میں خیمے بھی جل چکے

صحرائے شب میں بے سرو ساماں ہوں، یارسولؐ

میں ریاض حسین چودھری کی ’’رزق ثنا‘‘ پر اپنی یہ تحریر حضرت ضیاالامت کی اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔

’’الہٰی جو شان جو فضل و کمال جو حسن وجمال جو صوری محاسن اور معنوی خوبیاں تو نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو عطا فرمائی ہیں۔ ان کا صحیح عرفان اور پہچان بھی نصیب فرمادے اور ان کو اس طرح بیان کرنے کی توفیق مرحمت فرما جس کے مطالعہ سے تاریک دل روشن ہوجائیں۔ مردہ روحیں زندہ ہوجائیں، ذو ق وشوق کی دنیا آباد ہوجائے، جہاں غفلت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں وہاں تیرے ذکر پاک اور تیرے محبوب مکرمؐ کی مبارک یاد کی قندیلیں فروزاں ہوجائیں۔ ‘‘ آمین ثم آمین

رزق ثنا اس دعا کی قبولیت کی وہبی تصویر ہے۔