ریاض حسین چودھری کا نعتیہ شعور : پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
ریاض حسین چودھری نعت اور تنقیدِ نعت کا گہرا شعور رکھنے والے شاعر اور ادیب ونقاد کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے اردو نعت کواپنے شعور کا اس طرح لازمی حصہ بنالیا کہ اس کی خوشبوان کے لاشعور کے اندر تک پھیلتی چلی گئی۔ جہاں کہیں بھی نعت پہ کام ہوتا اور کوئی بھی شخص اس حوالے سے کچھ نئی بات کرتا وہ اس کو سراہتے اور اس پہ تبصرہ کرتے۔
انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے کی تشکیل وتکمیل کا کام روضۂ رسول پہ حاضری سے پہلے انجام دے لیا تھا۔ پھر انھوں نے روضۂ رسول پہ حاضری دی اور وہاں اپنی فکری کائنات کو جس طرح جلا بخشی اس نے ان کی تحریروں میں نئی جدت پیدا کی اور اپنی کیفیات اور محسوسات کو بڑے خوبصورت الفاط میں صفحہ ٔ قرطاس پہ منتقل کیا۔
اس کتاب’’نقدِ نعت پر ریاض حسین چودھری کے افکار‘‘ میں ان کی نعت سے متعلق نثری تحریریں، تبصرے، تنقیدات، حج سے متعلق سفرکی صورت حال اور انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔ جس سے ان کی زندگی کے وہ متنوع پہلو سامنے آتے ہیں جن میں حبِ نبی اور شعورِ نعت موجزن نظر آتا ہے۔
کتاب کے آغاز ہی میں ان کے پہلے مجموعہ نعت ’’زرِ معتبر‘‘کا پیش لفظ شامل کیا گیا ہے:
’’میرا ہر لفظ باوضو ہوکر اور میری ہرسانس احرام باندھ کر والیٔ کون مکاں کی بارگاہ اقدس میں سربسجود ہے۔ کشکول آرزو زرِ معتبر سے لبریز ہے، بازار مؤدت کا سب سے مستند حوالہ، امیروفقیر، شاہ وگدا کی کوئی تفریق نہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، یہ زندہ اور توانا احساس اُس پیکرِ جمال لے نقوشِ پا کے تصدق میں ظہور پذیر ہونے والے بے مثال ا ور لازوال موسموں کی رعنائیوں اور شادابیوں سے اکتساب نمو کر رہا ہے جو مقصودِ تخلیقِ دو عالم ہے۔ ‘‘
ان سطروں میں انھوں نے اپنے مخصوص نثری جملوں میں نہ صرف اپنے احساسات وجذبات اور کیفیات کی عکاسی کی ہے بلکہ کائنات کی تشکیل کی وجہ بھی بیان کر دی ہے۔ اور ساتھ ہی انسان کے سماجی حوالے سے قرآن اور رسالت مآب کے ارشادات بھی بیان کردیے ہیں۔
وہ ادب اور نعتیہ ادب کے حوالے سے اپنے مخصوص اور دلکش اسلوبِ بیان میں لکھتے ہیں:
’’ادب اپنے عہد کے تخلیقی اور سماجی رویوں کی کوکھ سے جنم لینے والی خوشبو کا نام ہے اور خوشبو کا امتیازی وصف یہ ہے کہ زمان ومکان کی حد بندیوں سے ماوراء ہوتی ہے۔ یہی خوشبو حسن وجمال کے پیکر میں سجتی ہے اور جذبات کی شبنم کے خنک اور گداز لمس سے ہمکنار ہوتی ہے۔ ‘‘
ان کے خیال میں شعر جب لوحِ احساس پر شفق کی مانند پھوٹتا ہے تو تب کہیں جاکر خیال کی خوشبو سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ظہور پذیری کے عمل سے گزرتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’شاعری جب دہلیز مصطفی کو چوم کر کیفِ دوام میں سرشار ہوتی ہے اور تخلیقی سطح پر خود سپردگی دائرہ عمل میں آتی ہے تو نعت قرطاس وقلم کو اپنے وجود کے اظہار کا اعزاز بخشتی ہے۔ ‘‘
ان کی تحریر میں جس طرح عقیدت واحترام کی فضا پائی جاتی ہے اور جس طرح وہ نبی کریم ﷺ سے اپنی والہانہ محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں، ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ ان کی ثنا خوانی کے ویژن کو قاری کے دل ودماغ پر روشن کرتا چلا جاتا ہے۔
زندگی کی لاحاصلی اور بے قراریوں میں ایک چیز جو انھیں قرار دیتی رہی وہ حضوری کے لمحوں کا حصول تھا۔ جس کاذکر اور اظہار ان کی تحریروں اور شعروں میں جا بجا جھلکتا ہے۔
لمحات حاضری کی تمنا لیے ہوئے
ایک ایک لمحہ عمرِ رواں کا بسر ہوا
حتیٰ کہ وہ بیماری ا ور نیم بیہوشی کے عالم میں بھی ذکرِ رسول اور مدحِ رسول کرنا نہیں بھولے۔ یہ عقیدت واحترام کا وہ درجہ ہے جو ہر کسی کو آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔
ان کی لفظیات میں ایک ایسا جادو ہے کہ ہر لفظ ایک نئے لفظ کا در کھولتا چلا جاتا ہے۔ ایک ایسی طلسم نگاری ہے جو کہ پڑھنے والے کو ایک نئے جہان میں لے جاتی ہے اور کیفیات ومحسوسات کی نئی دنیاؤں سے روشناس کراتی ہے۔
’’ہوا چراغ بانٹنے کا منصب سنبھالتی ہے اور خوشبوئیں نعت گو کے قلم کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ ‘‘
ان کے کے خیال میں غزل میں چاشنی بھی نعت کے وسیلے سے ہے۔
’’غزل نے نعت کے دامن صد رنگ کی خلعت فاخرہ اوڑھ کر اپنی ہی سلامتی اور بقا کا اہتمام کیا ہے۔ ‘‘
نعت میں ترسیل کا عمل رسول کریم ﷺ کی محبت کی وجہ سے تیز تر ہوجاتا ہے۔
’’ابلاغ کی چاندنی لفظ کے ظاہر ہی کو نہیں اس کے باطن کو بھی منور کردیتی ہے۔ ‘‘
’’نعت اندر کی روشنی کے بھرپور ابلاغ کا نام ہے۔ ‘‘
انھوں نے نعت کے حوالے سے اپنی تنقیدات میں ان پہلوؤں کوسامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ جن سے احترام ذات کے ساتھ ساتھ رسولِ کریم ﷺ کے افکار کو بھی نمایاں کیا جاسکے۔ فاضل بریلوی کے شعری ویژن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’فاضل بریلوی نے شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر بارگاہ رسالت مآب میں تصویر ادب بن جانے کی روایت کو زندہ رکھا ہے بلکہ ا دب واحترام کے حصار میں غزل کے رچاؤ اور بہاؤ کو مقید کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ‘‘
نعتیہ مجموعوں پر تبصرے کرکے انھوں نے نعت گو شعراا ور ان کے نعتیہ کلام کو نعت کی ادبی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔
اس کتاب میں ان کے پانچ انٹرویو بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان انٹرویوز کے دوران سوالات وجوابات سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا اور اسے زندگی بھر کا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھا۔ وہ نعتیہ خیالات کو قرآن مجید کی تعلیمات سے جوڑتے ہیں:
’’نعت کے حوالے سے میری سوچ قرآن کے فلسفۂ نعت سے مختلف نہیں۔ قرآن کا فلسفہ نعت ربط رسالت سے ابلاغ پاتا ہے۔ ‘‘
(انٹرویو ازڈاکٹر آفتاب احمد نقوی)
’’جب تک لفظ احرام باندھ کر نہ نکلے، اور خیال باوضو نہ ہو، ذہن نعت کا مضمون سوچ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘
(انٹرویو ازڈاکٹر آفتاب احمد نقوی)
’’چھٹی یا ساتویں میں تھا کہ پہلی نعت کہی۔ یہ نعت بچوں کے ایک رسالے ’’کھلونا‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ ‘‘
(انٹرویو از عمران نقوی)
’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک نعت گو کے لیے غزل گو ہونا بہت ضروری ہے۔ ‘‘ (انٹرویو از عمران نقوی)
’’میں نعت گوئی کی طرف شعوری طور پر نہیں آیا۔ ۔ ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں آنے سے پہلے میری روح فضائے نعت میں سانس لے رہی تھی۔ ‘‘ (انٹرویو ازمحمد طاہر۔ ابرار حنیف مغل)
’’نعت گوئی میری سرشت میں شامل ہے۔ قدرت ہزار زندگیاں بھی دے تو ہر زندگی میں نعت گو بننا ہی پسند کروں گا۔ ‘‘
(انٹرویو از محمد طاہر۔ ابرار حنیف مغل)
’’قرآن پاک کو ایک نعت مسلسل کہا جاتا ہے۔ ‘‘
(انٹرویو از اشفاق نیاز)
’’نعت درودوسلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز قرآن مجید فرقان حمید میں تاجدار کائنات حضور رحمت عالم ﷺ کے محامد ومحاسن کی دھنک پھیلی ہوئی ہے۔ ‘‘ (انٹرویو از اشفاق نیاز)
’’وہ جدت بے معنی ہے جس کی جڑیں اپنی روایت میں پیوست نہیں۔ ‘‘ (انٹرویو ازفاروق قمر صحرائی )
ان کے انٹرویوز سے نعت اور نعت گوئی کے حوالے سے کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ کئی سوالات کے ایسے جوابات اور معلومات ملتی ہیں جن کی وجہ سے قارئین ان کے خیالات وافکار سے صحیح معنوں میں روشناس ہوتے ہیں۔
اس کتاب کے آخر میں نثری نعت کے حوالے سے ان کے خیالات کو پیش کیا گیا۔ نثری نعت کو منظوم نعت سے کس طرح ممیز کیا جاسکتا ہے۔ اور شاعری کے مقابلے میں اسے ہم کس جگہ رکھ سکتے ہیں، یہ اہم مباحث ہیں۔
ہمارے یہاں عام طور پر نعت سے مراد یہی لی جاتی ہے کہ وہ شاعری کی صنف ہے مگر اس تحریر سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ نعت کو نثر کے آہنگ، لہجے اور اسلوب میں لکھا جاسکتا ہے۔ نعت کے لیے کوئی کسی قسم کی حد بندی نہیں یہ کسی بھی صنف میں لکھی جاسکتی ہے مگر صرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا اس کا لازمی خاصہ ہے۔ چونکہ یہ نثر میں ہے اس لیے نثریت تو اس میں موجود ہی ہے مگر اس میں شعریت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نثر میں شعریت کا تصور اس مضمون سے ہے جسے پیش کیا جارہا ہے۔ جہاں نثر میںمتن تخلیقی نثر کی قلمرو میں داخل ہوتا ہے وہاں اس میں تخلیقیت اور شعریت کا ہونا ضروری قرار پاتا ہے۔ چند نثری جملے ملاحظہ کیجئے:
’’سامنے رنگ ونور کی ایک دنیا آباد تھی، کشتِ آرزو میں رحمت کی بادِ بہاری چل رہی تھی، آسمانوں سے کہکشاؤں کے جھرمٹ اتر کر خالقِ وارض سما کی ربوبیت کا اعلان کر رہے تھے، میں اپنا بیگ اٹھائے حرم شریف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مجھے شوق فراواں کی ہمرکابی میسر تھی۔ یہ خیال دامن میں لپٹ گیاکہ حرم کی انہی دلکش فضاؤں میں میرے حضور بھی سانس لیتے ہوں گے۔ انہی پہاڑوں نے میرے آقا کے چہرۂ انور کی زیارت کی ہوگی۔ آقا علیہ السلام کا مقدس بچپن انہی گلیوں میں گزرا ہوگا۔ متانت شائستگی اور سنجیدگی کے الفاظ کی تخلیق انہی کی گردِ پا سے ہوئی ہوگی۔ یہی چاند میرے آقا کی انگشتِ مبارک کے اشارے پر وجد میں آیا ہوگا اور شق القمر کا معجزہ رونما ہوا ہوگا۔ ‘‘
یہاں لفظ’ بیگ‘ شعری مزاج کا حامل نہیں ہے۔ یہ نثر کا نمائندہ ہے مگر دیگر الفاظ تخلیقی متن میں شامل ہوتے ہیں اسی لیے تخلیقی نثر کی تشکیل کے امکانات میں شامل ہوکر اپنا جاندار کردار ادا کررہے ہیں۔
ان کے سفر ِ حج سے متعلق یاداشتوں میں حج ا ور عمرہ کا سارا فلسفہ خوب صورت انداز میں بیان ہوا ہے:
’’میں حالتِ احرام میں تھا اور عمرہ کی ا دائیگی کا فریضہ جلد از جلد ادا کرنا چاہتا تھا۔ زندگی ہی میں کفن بدن پر سجا کر جب انسان اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوتا ہے تو زمینی رشتے کچے دھاگوں کی طرح ایک ایک کرکے ٹوٹ جاتے ہیں سو میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ فکری اور نظری رشتے خون کے رشتوں پر غالب آچکے تھے۔ ‘‘
ریاض حسین چودھری ایک بے مثال شعر کہنے والے شاعر ہی نہیں بلک خو بصورت نثر اور تنقید لکھنے والے ادیب ونقاد کے طور پر بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور نثر خاص طور پر رسولِ کریم کی مدحت سے نمو پاتی ہیں۔ انھوںنے شاعری اور نثر کے پیرائے میں جو کچھ لکھا ہے وہ روایتی تحریریں نہیں ہیں کہ جنھیں کچھ عرصہ بعد بھلا دیا جائے بلکہ ان کی تحریروںکے حوالے سے بات ہوتی رہے گی اور ان کے لکھے گئے لفظوں سے قارئین فیض حاصل کرتے رہیں گے۔
شیخ عبدالعزیز بادغ نے جس ترتیب اور انداز سے ریاض حسین چودھری کی تحریروں کو مرتب کیا ہے اس سے یہ کتاب ایک گلدستے کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ ایک ایسا لفظوں کا گلدستہ جس میں کئی قسم کے پھول اکٹھے ہوں، ہر ایک اپنی اپنی جگہ خوب سے خوب تر۔ اورحسین سے حسین تر۔ انھوںنے ریاض حسین چودھری کی تحریروں کو جمع کرکے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ جس کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔