نامِ نبی کا وردِ مسلسل : ڈاکٹر طاہرہ انعام- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
ریاض حسین چودھری کا یہ مجموعہ اسم بامسمّٰی ہے کہ ان اشعار میں جو بھی کیفیات بیان ہوئیں، جو احساسات لفظوں میں ڈھلے، جو دعائیں عجز و محبت کی نوا گر ہوئیں، سب میں تاثر کا ایک تسلسل ہے۔ مطالعہ کرتے ہوئے جابجا یہ خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ یہی کیفیت، یہی جذبہ، یہی نیاز کسی گزشتہ شعر میں بھی جاگزیں تھا۔ ریاض صاحب کے نعتیہ کلام کی کثرت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے متعلق ان کا یہ گمان برحق ہے:
عالمِ ارواح میں مجھ کو قلم بخشا گیا
عشق کے رکھے گئے میری جبلت میں چراغ
ان کا سارا کلام اسی عشق کا اظہار ہے۔ جب عشق اور اظہار، دونوں قوتیں ودیعت ہو گئی ہوں تو پیہم عرضِ حال سے مفر کہاں۔ ۔ ۔ یہ زودگوئی انہیں مبہم تجربات کا موقع نہیں دیتی اور وہ طبعاً اس کے خواہاں بھی معلوم نہیں ہوتے۔ البتہ کلام میں ندرت کا لپکا ان کے دل میں ضرور موجود ہے۔ اس کا محرّکِ محض بھی عشق کی سرخوشی ہے جو خوش بیانی میںڈھلنا چاہتی ہے ورنہ اہل فن پر دھاک بٹھانا انہیں مقصود نہیں وہ سادہ دِلی سے اپنا سچا حال کہتے چلے جاتے ہیں۔ آنکھیں ہمہ وقت طیبہ کی رہگزر پہ ہیں، دل مہجوری میں بھی حضوری کے مزے لوٹتا ہے۔ کیفیات کی شدت نئی نئی تصویریں بناتی ہے، یہ تصویریں کبھی محسوس کردہ اور بیتے ہوئے لمحات سے بنی ہیں اور کبھی چشمِ تخیل انہیں وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی محسوس کرتی اور لفظوں میں اُجال دیتی ہے:
سردارِ کائنات کی چوکھٹ پہ رات سے
اک شخص ہے، ہجومِ سَحَر میں گھِرا ہُوا
آنکھوں نے جھک کے چُوم لی چوکھٹ حضور کی
اب چل پڑے گا دیکھنا دریا رُکا ہوا
پہلے سے دست بستہ کھڑا ہے مرا خیال
آیا ہوں میں تو شہرِ نبی ﷺ میں ابھی ابھی
مدینے میں کھڑا ہے ایک مجرم ہتھکڑی پہنے
اسے بھی عمر بھر کی ہوں سزائیں یارسول اللہ ﷺ
رنگ، خوشبو، پھول، تتلی، جگنو، روشنی، چاند، ستارے۔ ۔ ۔ یہ سب الفاظ اُردو شاعری میں ہمیشہ سے مستعمل ہیں اور بالخصوص غزل کے پیکر میں سو سو طرح اپنی چھب اور نزاکت دکھاتے رہے ہیں۔ شاعر کا دستِ ہُنر لفظوں کے تیور اور تلازمات بدل دیتا ہے۔ کشفی صاحب کے بقول: غزل کا عشقیہ لہجہ بڑا امتحان ہے اور یہ تلوار کی تیزدھار پر سفر ہے۔ مبارک ہیں وہ لفظ شناس جو اپنے سلیقے اور ادب کی بنا پر سلامتی سے اس راہ گزر سے گزر جاتے ہیں۔ ریاض صاحب کو غزل میں نعت کی کھری شاعری سمو دینے پر بجا طور پر فخر ہے۔ متذکرہ بالا الفاظ کو انہوں نے اس رُوپ میں ادا کیا ہے کہ حُسنِ فطرت کا ہرزاویہ فیضِ رسالت سے سرشار نظر آتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ نعت کہنے کے عمل میں لفظ، آواز کے جگنو بن کر چمکتے ہیں، روشنی شریکِ سفر ہوتی ہے۔ تتلیاں طوافِ قلم کرنے میں اپنے رنگ جھلکاتی ہیں، پتھریلے حروف بھی گلاب ہو جاتے ہیں۔ خوشبووں کے دریچے کھُل جاتے ہیں۔ چاندنی پر کُشا ہوتی ہے۔ مہ و مہر کی کرنیں وجد میں آ جاتی ہیں۔ ۔ ۔ انہی احساسات نے ان کے نرم لہجے میں جمالیاتی آہنگ پیدا کر دیا ہے:
اترا ورق پہ چاند ستاروں کا اک ہجوم
رعنائی خیال قلم سے لپٹ گئی
بکھر جائیں گے اب آواز کے جگنو ہواوں میں
بیاضِ نور و نکہت کو سپردِ چشم تر کرنا
طائف کے سنگ ہاتھ میں لے کر سرِ بدن
فصلِ یقین و عزم اُگائیں گے تتلیاں
انوار کی بارش میں مجھے ایسے لگا ہے
جیسے میں کئی چاند ستاروں سے بنا ہوں
کتنی عجیب عرضِ تمنا ہے اے خدا!
کشتِ ثنا میں تتلیاں جگنو اُگا کریں
خوشبو ریاض چھپ کر اوراق پر بچھی ہے
جب بھی ثنا کروں گا رُت سرمدی ملے گی
وردِ مسلسل کی نعتوں میں ایک واضح تاثر اس بات کا ہے کہ ریاض صاحب نے حضورِ پاک ﷺ کی خدمت میں جو بھی عرض کی ہے خواہ محبت اور مہجوری کا حال کہا ہے، خواہ مستقبل میں عشق و یقیں کی گیرائی طلب کی ہے۔ وہ کہیں بھی اپنی اولاد کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کے لیے بھی مسلسل حاضری کا شرف چاہتے ہیں۔ ان کے لبوں پر نعتِ نبی ﷺ کے گلاب کھلنے پر افتخار محسوس کرتے ہیں۔ حلقہ مدحت میں رہنے کے لیے انہیں آدابِ غلامی ازبر کرانا چاہتے ہیں۔ گویا ایک سچے اُمتی کی طرح آئندہ نسلوں کو بھی عشقِ رسول کے جواہر سے مالامال دیکھنا چاہتے ہیں تبھی نوکِ قلم سے اس مجموعے میں جابجا یہ دعائیں پرو دی گئی ہیں:
خدا کرے کہ قبیلے کا ایک اک بچہ
تمام عمر انھی کی گداگری میں رہے
بچے کھڑے ہیں گھر کی کنیزوں کے درمیاں
آقا! قبول ہو مری نسلوں کا انکسار
تصور میں جوارِ گنبدِ خضرا میں سب بچے
گھروندے آرزووں کے بنائیں یارسول اللہ ﷺ
ہوائے تند ہے، امواجِ سرکش کے پسِ پردہ
گھروندے میرے بچوں نے بھی ساحل پر بنائے ہیں
نعت ہی میری نسلوں کی پہچان ہو
زندگی کے سفر میں وہ حالات دیں
ریاض صاحب کے کلام میں خیال اصلی صورت میں بے ساختہ اور سہولت سے بیان ہوتا ہے۔ مجازی قرینوں میں بھی ان کا شعر متذبذب نہیں ہوتا بلکہ صریحاً نعت ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ تلمیحات کا استعمال کم ہے اور جہاں ہے وہ بیشتر اسلامی تاریخ ہی سے ماخوذ ہے۔ سیرتِ سرکار دو عالم ﷺ کی روشنی میں وہ عصرِ حاضر کے تمام فکری مغالطوں سے نکل آنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ وہ نعت سے اس منصبِ عظیم کو نبھانا چاہتے ہیں کہ تشکیک کا گردوغبار دولتِ یقین سے چھٹ جائے اور اسوہ حسنہ کے تذکار سے حسد و انتقام کے شعلے گلزار ہو جائیں۔
آنحضور ﷺ کی بارگاہ میں اُمت کا حال عرض کرتے ہوئے ان کے لفظ گواہی دیتے ہیں کہ ان میں سماجی اور سیاسی المیوں سے آگاہی، عصری حسیت اور جبرو استحصال کا کرب پنہاں ہے:
سالارِ قافلہ کو قواعد کی دیں کتاب
اُمت کی یا رسول ﷺ یہ سانسیں ہیں آخری
تاریک شب سے دوستی کرنے کے جرم میں
آقا! چراغ روشنی دیتے نہیں مجھے
لوگ کتنے ہیں خدا بننے کے شر میں مبتلا
میری پیشانی پہ سجدوں کا نشاں خطرے میں ہے
ہر ورق پہ سسکیاں چھوٹے ممالک کی حضور ﷺ !
گنبدِ خضرا کا موسم آج کے اخبار پر
نمایاں ہو نہیں پائے نشاں ٹھنڈی ہواوں کے
غبارِ فتنہ و شر میں بنی جی ہے وطن میرا
ہزاروں خارجی گندم چُرا لیتے ہیں کھیتوں سے
تصرّف میں نہیں میرے ابھی کوہ و دمن میرا
ریاض صاحب نے نعت رنگ (17) کے ایک مضمون میں لکھا کہ غزل کی داخلی کیفیت کا پورا نظام بنیادی طور پر نعت گو کا فنی حوالے سے تربیتی نصاب ہے۔ ۔ ۔ ۔ خود اُن کی نعتیہ غزل اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے اس نصاب سیبھرپور استفادے کے بعد، شعری روایت کے انجذاب کے بعد مدحتِ سرکار ﷺ پر قلم اُٹھایا ہے اور دیگر اہلِ ہُنر سے بھی یہی تقاضا کیا ہے کہ اِظہار و ابلاغ کی قوتیں، لایعنی تفکرات اور بے سمت خیالات میں صَرف نہ ہونے پائیں:
سخن ابہام کے کوچے میں آ نکلا ہے ہم نفسو!
عروسِ شعر کو نعتِ نبی ﷺ کے سرخ گہنے دو
معمور ہو جو اسم محمد ﷺ کے نور سے
شہرِ غزل میں ایسی کھری شاعری کریں
تو نے ریاض اذنِ خدا سے بصد خلوص
کشتِ غزل میں نعت کا موسم اُگا دیا
حضور ﷺ سے عشق اور حضور ﷺ کی مدح کا شوق صرف ان کے قلم ہی کے محرّک نہیں رہے بلکہ اس جذبہ عشق کا وفور ان کے نفس نفس میں تادمِ آخر رہا۔ ۔ ۔ تبھی اس شعر میں جو لپک ہے وہ بیان سے باہر ہے:
بچو! دمِ رُخصت مرے کہنا یہ اجل سے
ابّو تو ابھی مدحتِ سرکار میں گم ہیں