دل کو کیا ہے میں نے مدینہ سرِ قلم : محمد حسنین مدثر- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
نصاب غلامی ریاض حسین چودھری ؒ کے نعتیہ کلام کا اکیسواں مجموعہ ہے۔ یوں تو ان کے سارے مجموعہ ہائے نعت رسولِ محتشمؐ کی غلامی کا نصاب ہیں ؛ توصیف و ستایش، درود و سلام، ازل سے ابد تک پھیلا ہوا جہانِ نعت، جوارِ گنبدِ خضرا میں خوشبوؤں کی کیف پرور رم جھم اور تخلیقِ نعت کی مہذب ساعتوں کا ذکر ہر شعری مجموعے میں بھرپور انداز میں ملتا ہے۔ بیس مجموعہ ہائے نعت تخلیق کرنے کے بعد اس مجموعے کو انہوں نے نام ہی نصاب غلامی کا دیا ہے۔ یہاں وہ خود آگہی کے تجربے سے گذرتے ہیں اور اپنے شعور نعت اور تخلیقی عمل کے دوران طاری ہو جانے والی پر نور کیفیات کی ہیئت کو ٹٹولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے شعر کی شہرِ خنک سے نسبت کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کے حوالوں کو معتبر جانتے ہیں:
کوئی نسبت نہ رکھتے شعر طیبہ سے اگر میرے
کہاں ہوتے حوالے زندگی کے معتبر میرے
طشتِ سخن میں بھیجے ہیں اشعار کے گلاب
شہرِ کرم سے آج بھی ہے رابطہ ہوا
اس سلسلے میںبادِ صبا اور مدینے کی ہواؤں کا کردارخصو صیت کا حامل ہے، ان سے وہ بارگاہِ رسالت میں حاضری کے آداب سیکھتے ہیںاس سے قطع نظر کہ صبا اور مدینے کی ہوائیں ان کے کلام کی زندہ اور ان کے جہانِ معانی کو محیط علامات میں سے ہیں:
صبا اسمِ محمدؐ لکھ رہی ہے لوحِ مدحت پر
ادب کے دائرے میں رہ کے دل دھڑکے، ثنا لکھوں
ریاض آداب سیکھو باادب چلتی ہواؤں سے
چراغِ التجا روشن رکھو طیبہ کی گلیوں میں
ریاض ان ہواؤں کے مزاج شناس بھی ہیں اور انہیں اپنے اور گنبدِ خضرا کے درمیان نامہ بر گردانتے ہیں:
مَیں جانتا ہوں بادِ صبا کے مزاج کو
طشتِ ادب میں رکھے گی میری صدا کے پھول
کئی دن سے صبا اور خوشبوئیں واپس نہیں لوٹیں
کہیں رستے میں رک جاتے ہیں شاید نامہ بر میرے
دستِ بادِ صبا پر دھرے ہیں، آنسوؤں کے دیے چشمِ تر نے
جھک رہی ہیں ہوائیں ادب سے، کیا مقدر ہے نامہ بری کا
صبا انہیں مضامینِ توصیف بھی فراہم کرتی ہے:
وادیٔ توصیف میں کھِلتے ہیں افکارِ جدید
پھول لاتی ہے مری بزمِ تصوّر میں صبا
ریاض کی اپنی ایک دنیا ہے جس کا ادراک صرف انہی کو ہے۔ وہ اس دنیا میں ازل سے قیام پذیر ہیں :
خاک میری ہے ازل سے کہکشاں کی ہمسفر
شہرِ جاں میں بھی فضائے محترم آباد ہے
یا قلم کی سجدہ گاہِ شوق ہے منزل مری
یا ازل سے عشق کی محراب میں رہتا ہوں مَیں
یہ سجدہ گاہ شوق ہی ان کے عشق کی محراب ہے جس میں وہ ازل سے محوِ نعت ہیں۔ ازل کا تذکرہ اور ابد تک نعت نگاری کی تمنا ان کے پورے کلام میں چراغاں کئے ہوئے ہے۔ غلامیٔ رسولؐ پر وہ نازاں و فرحاں ہیں اور اس اعزاز پر وہ رب کریم کا شکر بجا لاتے ہیں۔ یہی غلام ان کے سر کا تاج ہے۔
اب آرزو ریاضؔ کروں بھی تو کیا کروں
صد شکر میں غلامِ شہِ مرسلاںؐ ہوا
تُو اپنے آپؐ کو تصویرِ التجا کرنا
وفورِ ربطِ غلامی کی انتہا کرنا
ایک اک لفط کے سر پر ہے غلامی کی ردا
دستِ شاعر ہے پر و بالِ ہُما کی صورت
درِ سرکار پر میں گفتگو کرتا ہوں اشکوں سے
غلامی کے ہزاروں رنگ ہیں میری غلامی میں
اسی غلامی کے فروغ کو وہ اپنا اصل منصب سمجھتے ہیں۔ یہی غلامی ان کے عشق کا پیرہن ہے جس کے لئے انہیں قلم عطا ہوا ہے۔ غلامی اعلائے کلمتہ الحق ہے اور اس میدان میں غلاموں کے لئے صراط مستقیم اسوۂ شبیر ہے۔ یہی جنابِ ریاض کا نصابِ غلامی ہے جسے وہ عشقِ نبیؐ کا نصاب بھی کہہ رہے ہیں:
جس نے قلم دیا ہے اُسی کو حساب دیں
ہم عہدِ نو کو عشقِ نبیؐ کا نصاب دیں
ہر عہد کا جواز ہیں آقائے محتشمؐ
ہر دور کا نصاب ہے ہستی رسولؐ کی
سرِ مقتل، غلامو! نعرۂ تکبیر بن جانا
پڑے سچ بولنا تو اسوۂ شبیر بن جانا
یہ غلا میٔ رسول محض امت مسلمہ یا عالم انسانیت تک محدود نہیں بلکہ کائنات میں ہر سو یہی موسم جاری و ساری ہے۔ جب یہ طوقِ غلامی نصیب ہو جائے تو دنیا کی امامت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے:
کل بھی تھا اُنؐ کی غلامی ہی کا موسم ہر سو
دست بستہ ہیں کھڑے آج بھی دونوں عالَم
طوق ہو اُنؐ کی غلامی کا گلے میں پہلے
پھر اگر چاہوں تو دنیا کی امامت کر لوں
ازل سے شہرِ قلم کے باسی، جنابِ ریاض، جنہیں شاعرِ رسولؐ ہونے کا مقام حاصل ہے اور جو برملا کہتے ہیں: جب بھی سوچوں گا نبیؐ کی نعت ہی سوچوں گا مَیں، تخلیقِ شعر کے ایک سرمدی نورانی عمل میں ملفوف رہتے ہیں۔ یہ ہر شاعر کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنے شعر کی تخلیق کے مادی، غیر مادی، نفسی، روحانی اور سری پہلوؤں کو محسوس کر کے اسے شعری لغت کے حوالے کر سکیں۔ ریاض کی تخلیقی وسعت نظری اور کمال فن کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ الفاظ کے ظاہر و باطن کو اپنے وجدان میں محسوس کر کے اپنے استعاروں اور رعائیتوں کی مدد سے اپنی رواں بحروں اور جامعیت شناس ردائف و قوافی کے پیرہن میں پیش کر سکیں؛ نصاب غلامی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ دیکھیں وہ تخلیقِ شعر کے لئے کیا کچھ کرتے ہیں؛ اگر کوئی اور بھی یہ سب کر لے تو وہ ریاض حسین چودھریؒ سے کہیں آگے کا شاعر ہے:
پہلے سمیٹ لیں سرِ شب خوشبوئیں تمام
کلکِ ثنا کو پھر تر و تازہ گلاب دیں
نغمگی تخلیق ہوتی ہے پسِ حرف و صدا
مطربو! ہر نعت کی مضراب میں رہتا ہوں مَیں
لپٹی ہوئی ہیں ایک اک مصرعے سے خوشبوئیں
کس کا ہے نام خلدِ سخن میں کھِلا ہوا
جب روح میں اسم محتشم کی شگفتگی مہک اٹھتی ہے تو مصرعوں سے خوشبوئیں لپٹ جاتی ہیں اور نعت ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے لئے نعت کے مضراب میں رہنا پڑتا ہے تا کہ پسِ حرف و صدا نغمگی تخلیق ہو سکے، پھر وہ اس کا راز اگل دیتے ہیں:
دامنِ شہرِ قلم میں رقص کرتا ہے خیال
پھر ابھرتا ہے ورق پر نعت کا حسن و جمال
نعت ہے اُنؐ کی محبت کے سمندر کا خروش
نعت ہے عشقِ نبیؐ کی انتہائوں کا سفر
چھڑا ہے ذکر سرِ بزمِ آرزو اُنؐ کا
لغت کا حسنِ بلاغت مچل مچل جائے
مدینے کے سفر کا خوشبوئوں نے ذکر کیا چھیڑا
شگفتہ پھول شاخوں پر ادب سے مسکرا اٹھّے
ہر پھول مہکنے کا ہنر آپؐ سے سیکھے
اربابِ چمن نقشِ کفِ پا سے بنے ہیں
ریاض کا یہ مجموعۂ نعت ایسے کئی اشعار کا خزینہ ہے جو ان کے افتخارِ غلامی کے نور سے روشن ہیں۔ انہیں حُبِ نبیؐ میں مقام حضوری عطا ہوا ہے۔ جب یہ غلامِ شہِ حجاز مدحت سرا ہو جاتے ہیں تو ان کے اشک رواں سر قلم جگمگانے لگتے ہیں اور قلم محوِ ستایش ہو جاتا ہے۔ ریاض نے یہ مضامین اپنے سارے کلام میں موضوع بنائے ہیں۔ اپنے اس تجربے کو نصابِ غلامی میں وہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
اترا ہے شب میں نور کا زینہ سرِ قلم
لَو دے اٹھا ہے دل کا نگینہ سرِ قلم
باندھے ہوئے ہے ہاتھ لغت احترام سے
کیا خوب ہے سلیقہ، قرینہ سرِ قلم
خیرالوریٰ کے دامنِ رحمت کو دیکھ کر
رقصاں ہوا جبیں کا پسینہ سرِ قلم
مدحت سرا ہوا ہے غلامِ شہِ حجازؐ
سمٹے گا آنسوؤں کا خزینہ سرِ قلم
الفاظ کیوں طواف نہ کرنے لگیں ریاضؔ
دل کو کیا ہے مَیں نے مدینہ سرِ قلم
دل کے افق پہ اسمِ نبیؐ پرفشاں ہوا
میرا قلم، ریاضؔ، مرا ہمزباں ہوا
کرتی ہے رقص خوشبو ہر نعتِ مصطفیٰؐ میں
کلکِ ثنا ادب سے ہر وقت جھومتی ہے
نعت لکھتے لکھتے جوارِ گنبدِ خضرا کی فضاؤں میں تخیل کی پرواز کے ساتھ اور مدینے کی ہواؤں سے سرگوشیاں کرتے کرتے ریاض کے دل میں معاً اپنے پیارے وطن کی محبت جاگ اٹھتی ہے۔ وطن کی محبت اور امت مسلمہ کے مصائب کا دکھ ان کے دل کی گہرائیوں میں ہر وقت موجود رہتے ہیں:
ہر لمحہ زلزلوں کا ہدف ہے مرا وطن
لمحوں میں بٹ گیا ہوں مَیں، آقاؐ کرم کریں
پرچمِ ارضِ وطن پر اے مرے اچھے خدا
چاند تارا جگمگائے دین کی اقدار کا
ختم ہو جائے گا پسپائی کا ہر موسم، ریاضؔ
میرے ہاتھوں پر لکھا جائے گا حرفِ ارتقا
لگی ہے آگ ہر بستی کے کھلیانوں میں برسوں سے
میں پاکستان سے لایا ہوں اشکوں کے سمندر بھی
خدائے ارض و سماوات اِس وطن کی خیر
جسے میں پھول، دھنک، روشنی، صبا لکھّوں
عالم اسلام میں کشمیر و فلسطین میں حقوق آزادی کی پائمالی کو بھی ریاض برداشت نہیں کرتے اور کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کے مصائب دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نعت لکھتے لکھتے اس درد دل کو بھی وہ نوک قلم پر لے آتے ہیں:
خون میں ڈوبے ہوئے ہیں آج بھی شام و سحر
یا محمدؐ! اہلِ کشمیر و فلسطیں پر نظر
دخترِ کشمیر کے آنچل میں کیا کلیاں کھلیں
چھائوں کیا بانٹیں گے یہ جلتے ہوئے میرے شجر
کب افق پہ مہرِ آزادی طلوع ہوگا، حضورؐ
ختم ہوگا کربلا میں کب اندھیروں کا سفر
امت مسلمہ کے آلام و مصائب اور کسمپرسی کو دیکھ کر ان کا قلم ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور آپ بر ملا امت کی ہوس زر کو اس کے زوال کا موجب گردانتے ہیں:
امت ہوس کدوں کی بنی رزقِ ناتمام
محرابِ زر میں کرتی ہے سجدے، حضور جیؐ
جہاں وہ اپنے وطن پاکستان، کشمیر و فلسطین اور امت کو نہیں بھولتے وہاں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ نعت میں اپنے ذاتی دکھوں کو موضوع بناتے ہیں:
مَیں نعت نگاری کے دامن میں بھی رکھتا ہوں
دکھ اپنے قبیلے کے، ہر ذاتی پریشانی
اپنے ہی دکھ سمیٹتا رہتا ہوں نعت میں
مجھ کو ملی ہے حرفِ تسلی کی چاندنی
ریاض اپنی لحد سے کبھی فراموش نہیں ہوتے۔ سوتے جاگتے بھی وہ اس خیال میں مگن رہتے ہیں کہ لحد اور عالم برزخ میں وہ اپنے قلمدان کے ساتھ ہوں گے اور صلِّ علیٰ کا موسم وہاں بھی عطر بیز ہو گا۔ اپنے کلام میں جگہ جگہ وہ اس تمنا کا اظہار کرتے نہیں تھکتے کہ قبر میں بھی نعت نگاری کا نور ان پرترشحات کی پھوار جاری رکھے گا:
کچھ اس قدر ہے خلدِ مدینہ سے دوستی
پیشِ نظر لحد میں بھی ہے روضۂ رسولؐ
مہکے مری لحد بھی درود و سلام سے
بعد از حیات ذکرِ شہ مرسلاںؐ چلے
ابد تلک مرے ہونٹوں پہ پھول مہکیں گے
لحد میں ساتھ مرے نعتِ مصطفیٰؐ ہو گی
مرے حضورؐ کے شاعر کی قبر ٹھنڈی ہو
مَیں روزِ حشر بھی تائبؔ کے کارواں میں رہوں
یہ ہیں وہ چند پہلو جو ریاض کے نصابِ غلامی کے انوار کا درجہ رکھتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع اور اظہار کی تازگی ریاض کے اسلوب شعریت کی پہچان ہیں۔ وہ اپنی مخصوص شعری لغت میں تشبیہات و استعارات اور لفظی رعایئتوں کے استعمال سے بھرپور نعت لکھتے ہیں جب کہ ان کی نعت کا کینوس رحمت دو عالم کی شان رحمت کے توسل سے پوری کائنات کو محیط ہے۔ ان کے اشعار، ان الفاظ اور ان اجالوں سے ترتیب پاتے ہیں جن کا طلوع شہر خنک کے طمانیت افروز موسموں سے ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
جن کے ہاتھوں پر گلابِ نعت ہیں لکھے ہوئے
سارے موسم، ہیچ ہیں اُن موسموں کے سامنے
سجا رہتا ہے آنکھوں میں مری، شہرِ منور بھی
اجالا ہی اجالا ہے مرے لفظوں کے اندر بھی
مرے ہر لفظ کی معراج ہے اُنؐ کی ثنا کرنا
یہی میرے قلم کی ابتدا بھی، انتہا بھی ہے