ریاض کے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت : شیخ عبدالعزیز دباغ- ریاض حسین چودھریؒ کا جہان فن
ریاض حسین چودھری اردو نعتیہ ادب کا ایک معتبر نام ہے۔ آپ نے شعر لکھنا تو زمانۂ طالب علمی ہی میں شروع کر دیا جب کہ ان کا ماحول ان کے ادبی ذوق کی پرورش کرتا رہا۔ اساتذہ، طالب علم ساتھیوں کی باذوق سنگت، ذوقِ مطالعہ، خاندان میں بعض احباب کی شاعری کی طرف رغبت اور خصوصاً ان کے گھر ہی کو مسلم لیگ ہاؤس قرار دیا جانا، قائد اعظم کی سیالکوٹ آمد پر ان کے پورے گھر کا مسلم لیگ کی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جانا اور اس کے ساتھ گھر میں ہر ماہ بڑی سطح پرمحفل نعت کا اہتمام اور اس میں سرکردہ مدحت نگاروں اور نعت خوانوں کی شرکت ایسے عوامل ہیں جو ریاض کی شخصیت کی تشکیل اور ان کے اندر ایک نعت گو شاعر کی اٹھان اور اڑان میں بہت کام آئے۔ 1958 میں مرے کالج سیالکوٹ میں داخلے سے پہلے ہی وہ مشاعروں میں جایا کرتے اور داخلے کے بعد آپ نے ادبی محافل میں باقائدہ شرکت کا آغاز کیا اور جلد ہی کالج میگزین کے مدیر بن گئے اور یہ منصب ان کے پاس دو کی بجائے تین سال تک رہا۔ یہ اور ایک مدح نگار ذہن کی تشکیل و تعمیر کے حوالے سے ریاض کے بارے میںدیگر معاملات راقم نے ایک الگ تحقیقی کاوش میں بیان کئے ہیں۔ یہاں ان کی ابتدائی کاوشوں اور بعد میں مجموعہ ہائے نعت کی اشاعت کے ضمن میں ایک تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔
1965 کی پاک بھارت جنگ اور دوران جنگ سیالکوٹ شہر میں قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے آپ کے اندر چھپے ہوئے ایک اسلامی ملی شاعر کو دریافت کیا۔ انہوں نے ملی حمیت اور حریت کی صورتحال میں اپنی نظموں کا مجموعہ ’’خون رگ جاں‘‘ تخلیق کیا اور سیالکوٹ کے ادبی حلقوں میںاپنی ملی شاعری سے تخلیقی ولولہ پیدا کر دیا جس سے مقامی شعرا ان کے گرد جمع ہونے لگے اور بعد میں حلقہ ارباب ذوق میں ایک فعال ادبی حلقے کی شکل اختیار کر گئے۔ چھ ستمبر 1970 کے یوم دفاع کے موقع پر ریاض نے ’’خون رگِ جاں‘‘ شائع کر کے اپنے مقامی حلقوں میں تقسیم کر دیا۔ اگرچہ آغا صادق صاحب کے ساتھ ان کا قریبی ادبی رابطہ وجود میں آ چکا تھا مگرآپ کی اس کاوش کو قومی سطح پر کبھی بھی سامنے نہ لایا گیا۔ ذرائع ابلاغ تک پہنچنا اور وسیع پیمانے پر متعارف ہونا درویشوں کا شروع ہی سے مسئلہ رہا ہے اور ریاض حسین چودھریؒ ایسے ہی ایک درویش تھے جبکہ وہ زمانہ بھی صرف پرنٹ میڈیا تک محدود تھا اور اخبارات و جرائد کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کی وجہ سے ان کا کردار بھی متعین کر دیا گیا تھا۔
پھر سقوط ڈھاکہ کا سانحہ تو ان سے برداشت نہ ہوا اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان ہی کہتے رہے اور بنگلہ دیش کا لفظ کبھی زبان پر نہ لائے۔ چنانچہ اس موضوع پر ملی نظموں پر مشتمل ’’ارض دعا‘‘ تخلیق کی جس کی اشاعت نہ ہو سکی اور وہ مسودہ کی شکل میں زندگی بھر ان کے ریکارڈ کے نیچے دبتا چلا گیا۔ یہ تو حال ہی میں احقر نے اس مسودے کو ان کے مسودات کے ذخیروں سے نکال کر اسے پرنٹنگ کے لئے ترتیب دیا ہے اور اب اس پر اشاعت کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ یہاں وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ احقرکو کہیں کوئی پبلشر نہ سمجھ لیا جائے۔ میں بھی ایک غیر معروف بندہ ہوں اور ریاض کی تخلیقات کی اشاعت کے حوالے سے میری دوڑ دھوپ ریاض اور ان کی نعت سے محبت کی وجہ سے ہے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس سے ریاض حسین چودھری صاحب کی نعت پڑھنے اور پسند کرنے والے زیادہ تر احباب آشنا نہیں۔ جب کہ ان کی نعت نگاری کے حوالے سے بھی چند احباب یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ ریاض نے نعت لکھنا اس وقت شروع کی جب وہ 1986 کو منہاج القرآن میں شامل ہوئے اور پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کی ادارت کا منصب سنبھالا۔ حالانکہ ریاض کا پہلا مجموعہ نعت ’’زرمعتبر‘‘ جو 1995 میں شائع ہوا، اوراُن نعتیہ تخلیقات پر مشتمل ہے جو انہوں نے 1985 تک لکھیں اور ہنوز انہیں درِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں جناب حفیظ تائبؒ نے ’’زرمعتبر‘‘ کے دیباچے بعنوان ’’پیشوائی‘‘ میں ماہنامہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں جناب آفتاب نقوی صاحب کو دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے ریاض حسین چودھریؒ کا اپنا قول بھی نقل کیا ہے۔
اس کے بعد ریاض کے بعد میں شائع ہونے والے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام کی تفصیل ان کی ویب سائیٹriaznaat.comپر مل جاتی ہے جس میں ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب کی خصوصی تحریر خصوصی اہمیت کی حامل ہے جو انہوں نے ان کے پندرھویں نعتیہ مجموعے ’’کائنات محو درود ہے‘‘ کے تعارف میں لکھی ہے۔
احباب کو بخوبی علم ہے کہ 2017 میں ریاض حسین چودھریؒ صاحب کی وفات تک ان کے پندرہ مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو چکے تھے اور راقم کوباقی ابھی آٹھ مجموعوں کی اشاعت کا اہتمام کرنا تھا۔ میری اولین ترجیح یہ تھی کہ جلد از جلد ریاض کے مسودات کی شکل میں پڑے ہوئے جملہ نعتیہ مجموعوں کو محفوظ کیا جائے اورقارئین تک پہنچایا جائے۔ اس کے لئے کتابوں کی طباعت و اشاعت کا راستہ طویل تھا جس کے لئے مالی وسائل کا انتظام ایک اہم مرحلہ تھا۔ لہٰذا پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ریاض صاحب کی ویب سائیٹ پر کام کیا گیا اور ان کے سارے مجموعے اپ لوڈ کر دئیے۔ احباب نے اس کاوش کی بہت پذیرائی کی اور ان کی دعاؤں سے ویب سائیٹ کوقبول عام حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی bazm-e-riazکے نام سے Android App بنائی جس سے ان کے کلام سے مدح خوانوں کو سہولت فراہم ہو گئی۔
ریاض کے باقی آٹھ مجموعہ ہائے کلام میں سے ’’برستی آنکھو خیال رکھنا‘‘ 2018 میں شائع ہو گیا جو آپ نے بستر علالت سے ہمیں عطا کیا تھا۔ ان کے نعتیہ کلام کا جو گلدستہ اب آپ کو پیش کیا جا رہا ہے ریاض حسین چودھری صاحب کے چار مجموعوں ’’ تاجِ مدینہ، کتابِ التجا، شعورِ کربلا اور اکائی ‘‘پر مشتمل ہے۔ ریاض کی نعت پر اکابر احباب نقدونظر اور اساتذۂ فن نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کی وسعت اور جامعیت کے پیش نظر ان چار کتابوں پر الگ الگ تعارف کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہر کتاب اپنا تعارف آپ ہے۔ البتہ ہمیں انتظاار رہے گا کہ قارئین ان مجموعہ ہائے نعت کے مطالعہ کے بعد ریاض کی نعت نگاری کے ان پہلوؤں پر اپنی قابل قدر آراء سے ضرور نوازیں جو انہیں ان کے پہلے مجموعہ ہائے نعت سے متمیز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’تاجِ مدینہ‘‘ کو نصاب زندگی اور کتاب ارتقا قرار دینا ریاض کے نعتیہ افکار کی اساس ہے اور ان کے اس مجموعے میں ان موضوعات پر ایسا کلام ملتا ہے جو ان کے پہلے شائع ہونے والے مجموعوں میں نہیں یا کم ملتا ہے۔
رقم تفصیل سے اس میں نصابِ زندگانی ہے
اسے کھولو، کتابِ ارتقا تاجِ مدینہ ہے
خدائے واحد کی رضا کی طلب و اشتہا بندہِ مومن کا سرمایۂ ایمان تو ہے ہی لیکن چودھری صاحب مرحوم اسے بھی تاجِ مدینہ ہی قرار دیتے ہیں۔
طلب گارِ مدینہ تھا، طلب گارِ مدینہ ہوں
خدائے آسماں تیری رضا تاجِ مدینہ ہے
رضا سے آگے تاجِ مدینہ اُس جہانِ کرم کو محیط ہے جس کی پہلی کرن جبلِ نور پر خلوتِ پیغمبرؐ سے پھوٹی تھی اور جس کی ابتداء ’’مکے کے موسم‘‘ سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا مدینہ میں سجی ہوئی بارگاہِ رسالت ہے۔
کرم کے سلسلوں کی ابتداء مکہ کا موسم ہے
کرم کے سلسلوں کی انتہا تاجِ مدینہ ہے
’’کتاب التجا‘‘ ایک اور مجموعہ ہے جس میں شاعر نے اپنے التجائیہ شعری تجربات
کو اپنی مخصوص شعری لغت اور اسلوب میں بیان کیا ہے۔
جب بھی چاہوں مَیں ترے در پر پہنچ جایا کروں
میرے مولا! میرے اندر سے نیا رستہ بنا
فضا میں کب تلک اڑتی رہیں گی میرے خدا!
برہنہ شاخ پہ چڑیوں کے گھونسلے برسیں
’’شعور کربلا ‘‘ میں بھی، جیسے نام سے ظاہر ہے، ریاض کربلا کی فکری تہوں کے خد و خال اجاگر کر رہے ہیں۔
حسینؓ، آپ کے دامن سے چن رہا ہوں چراغ
یہ اِس لئے کہ مرے گھر میں گھُپ اندھیرا ہے
’’اکائی‘‘ ایک نئی صنف ادب ہے جسے ریاض نے پہلی بار نعتیہ ادب میں ایک نئی صنف کا مقام دیا ہے۔
نعت
پڑھیئے اس طرح جیسے نبیؐ ہوں سامنے
نعت
سنیئے اس طرح جیسے ہو دربارِ نبیؐ
نعت
لکھیئے آسماں سے گفتگو کرتے ہوئے
یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر الگ الگ ریاض کی نعت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
ریاض کی ذاتی لائبریری میں جتنے قلمی نسخے ملے اس سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ مختلف وقتوں میںوہ مختلف مضامین اور کیفیات کے تحت ریاض اپنی تخلیقات کا الگ الگ ریکارڈ رکھتے اور ان موضوعات اور کیفیات کے حوالے سے جب ایک کامل دفتر وجود میں آ جاتا تو اسے کتابی شکل دے دیتے۔ ’’کتاب التجا‘‘ جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے ان کی التجاؤں پر مشتمل نعتیہ تخلیقات کا ایک عدیم النظیر مجموعہ ہے جو پڑھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں حرمین شریفین کی حاضری سے پہلے، حاضری کے دوران اور بعد کی التجائیں شامل ہیں، جن میں مضامین کی وسعت اور ان کا تنوع بیان سے باہر ہے جب کہ پیرایہ خون جگر کی نمود سے کچھ آگے ہے۔ ہو سکتا ہے نعتیہ مجموعے تخلیق اور مرتب کرنے کے حوالے سے ریاض نے یہ طریقہ اختیا نہ کیا ہو۔ تاہم راقم نے ان کے ریکارڈ کے نظم کو دیکھ کر یہی اندازہ لگایا ہے۔
مجھے امید ہے کہ قارئین اور ریسرچ سکالرز ان معلومات سے خاطر خواہ استفادہ کر سکیں گے۔ اور رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت نگاری کے فروغ کے لئے جدید نعت نگاری کی ترویج کی خاطر ریاض کی نعت کی میڈیا پر رسائی کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ان شاء اللہ!