لطف و راحت کا یہ منظر بھی دکھایا جائے- رزق ثنا (1999)
لطف و راحت کا یہ منظر بھی دکھایا جائے
مجھ سے عاصی کے کبھی خواب میں آیا جائے
آیتِ عشقِ پیمبرؐ ہے اترنے والی
آبِ کوثر سے قلم میرا دھلایا جائے
دل کے آنگن میں سجی بزمِ ثنائے خواجہؐ
کشورِ روح کو کلیوں سے سجایا جائے
جس کی شاخوں پہ درودوں کے پرندے چہکیں
کشتِ انفاس میں وہ پیڑ لگایا جائے
جانبِ شہرِ خنک کیوں نہ بصد عجز و نیاز
طائرِ عرضِ تمنا کو اڑایا جائے
گھِر کے آئے گا مدینے سے شفا کا بادل
میرے آقاؐ کو مرا حال بتایا جائے
ایک مجرم کو طلب اپنی عدالت میں کریں
یانبیؐ پھر اسے کملی میں چھپایا جائے
لوحِ محفوظ پہ لکھّا ہوا اسمِ اعظم
غیر ممکن ہے کسی سے بھی مٹایا جائے
اپنی پیشانی پہ محراب سجانے والو!
اپنے اندر کے بھی ہر بت کو گرایا جائے
اس سے پہلے کہ مچلنے کا ہنر کھو بیٹھوں
مجھ خطا کار کو بھی در پہ بلایا جائے
کیا گزرتی ہے شب و روز وطن پر میرے
ماجرا سارا انہیں آج سنایا جائے
لب پہ مہکے ہوں مرے اسمِ گرامی کے گلاب
جب لحد سے مجھے محشر میں اٹھایا جائے
ذکر پھر چھیڑ کے طائف کے مبلّغ کا ریاضؔ
رات بھر اہلِ محبت کو رلایا جائے