نئے سال کے آغاز پر ایک اور دعائیہ نظم- متاع قلم (2001)
اقلیمِ روز و شب میں خداوندِ دو جہاں
اب کے برس بھی عشقِ محمدؐ کا راج ہو
اب کے برس بھی قریہ جاں میں کھلیں گلاب
اب کے برس بھی سر پہ غلامی کا تاج ہو
ذکرِ نبیؐ کی چاندنی مہکے سرِ قلم
افکارِ دلپذیر کا میلہ لگا رہے
اوراقِ جاں پہ گنبدِ خضرا کے عکس سے
ملکِ سخن کا اب کے بھی منظر سجا رہے
اب کے برس بھی نعت حوالہ بنے حضورؐ
اب کے برس بھی اذنِ ثنا دیجئے مجھے
ہر لمحہ مَیں دیارِ محبت ہی میں رہوں
اب کے برس بھی ایسی دعا دیجئے مجھے
اب کے برس بھی دیدہ و دل میں جلیں چراغ
اب کے برس بھی لب پہ اُجالے رقم کروں
اب کے برس بھی وجد میں آئے مرا شعور
روشن مَیں چشمِ تر میں غبارِ حرم کروں
جذباتِ دلنواز کی انمول چاندنی
اب کے بکھیردوں گا مَیں ارضِ شعور پر
بچے بھی جانتے ہیں رہِ شوق میں ریاضؔ
سب کچھ نثار کرنا ہے آقا حضورؐ پر
اب کے برس بھی گھر کی فضاؤں میں ہر گھڑی
یہ عجز و انکساری کا موسم ہرا رہے
صحنِ چم میں بادِ بہاری کرے ہجوم
دامانِ آرزو زرِ گُل سے بھرا رہے
اقصیٰ سے اٹھ رہا ہے دھواں آج بھی حضورؐ
حرفِ دُعا میں بابری مسجد ہے اشکبار
آقاؐ حمیتوں کا جنازہ نکل گیا
گروی رکھیں گے عظمتِ کعبہ کو بار بار
اُمّت ہتھیلیوں پہ اُگا کر سروں کی فصل
کب سے کھڑی ہے قتل گہوں کے جوار میں
جس نے چراغ بانٹے تھے تہذیب کے کبھی
وہ کاروانِ شوق ہے شب کے حصار میں
زخموں سے چُور چُور ہے پندارِ آرزو
ڈوبا ہے اپنے خون میں کشمیر کا بدن
ہے سرخ جیسے دخترِ حوا کی اوڑھنی
اسلامیوں کے خون سے پھر ہند کا گگن
گرد و غبارِ راہ گزر میں ہیں گم حضورؐ
اس سوچ میں کہ شام ہے کس سَمت جائیے
جلتے نہیں چراغ فصیلِ بہار پر
آقاؐ ہمیں نجات کی راہیں دکھائیے