پسِ مژگاں حضوری کی دعائیں رقص کرتی ہیں- متاع قلم (2001)
پسِ مژگاں حضوری کی دعائیں رقص کرتی ہیں
درودوں کی لہو میں فاختائیں رقص کرتی ہیں
دھنک بڑھ کر عقیدت سے قلم کو تھام لیتی ہے
بوقتِ نعت گوئی کہکشائیں رقص کرتی ہیں
چھڑے جب تذکرہ رعنائی اسمِ محمدؐ کا
چمن میں خوشبوؤں کی اپسرائیں رقص کرتی ہیں
لبوں پر جب چھلک اٹھتا ہے اسم ہادیٔ برحق
ہر اک لغزش مچلتی ہے خطائیں رقص کرتی ہیں
میں جب اشکوں سے لکھتا ہوں عریضہ اُنؐ کی خدمت میں
ورق کو چوم کر بھیگی ہوائیں رقص کرتی ہیں
حصارِ آرزو میں شام ہوتے ہی تڑپتا ہوں
چراغِ دیدۂ تر میں وفائیں رقص کرتی ہیں
محیطِ جسم و جاں ہوتا ہے جب یہ ہجر کا موسم
کسی مجبور انساں کی نوائیں رقص کرتی ہیں
میں جب کرتا ہوں روشن مشعلِ تعظیمِ پیمبرؐ
مناظر جھوم اُٹھتے ہیں فضائیں رقص کرتی ہیں
نہا جاتا ہے ہر حرفِ دعا رحمت کی بارش میں
نبیؐ کے ہاتھ میں آکر عطائیں رقص کرتی ہیں
لٹاتے ہیں سخا کی رم جھمیں وہ دونوں ہاتھوں سے
بہاریں تو بہاریں ہیں خزائیں رقص کرتی ہیں
درِ شہر نبیؐ پر، دے کے دستک اپنی آنکھوں سے
مضافاتِ مدینہ میں صبائیں رقص کرتی ہیں
وہ ہر زاہر کو ٹھہراتے ہیں اپنے گھر کی چھاؤں میں
فصیلِ شہرِ طیبہ پر انائیں رقص کرتی ہیں
اترتے ہیں فرشتے جام لے کر آبِ کوثر کے
درِ عالی پہ جب تشنہ ندائیں رقص کرتی ہیں
نبیؐ کے شہر میں وہ کھیلنے والے حسیں بچے
نظر میں پھول سی اُن کی عبائیں رقص کرتی ہیں
مدینے کے گلی کوچوں میں جب ملتا ہے بن مانگے
سرِ دربار جھک جھک کر صدائیں رقص کرتی ہیں
مجھے سجدوں کی بیتابی کا اندازہ نہیں ہوتا
جبینِ شوق میں کیا کیا ادائیں رقص کرتی ہیں
اُجالوں کا مسافر ہوں، بفیضِ سرورِ عالمؐ
اندھیری رات میں شبھ کامنائیں رقص کرتی ہیں
یہ کس کے نقشِ پا سے سیلِ رنگ و نور پھوٹا ہے
حریمِ شب میں یہ کس کی ضیائیں رقص کرتی ہیں
مرے سر پر ہے دستارِ غبارِ وادیٔ طیبہ
سرِ محشر غلامی کی قبائیں رقص کرتی ہیں
مہکتی ساعتوں کے پھول کشکولِ نظر میں دیں
کہ پس منظر میں بھی جلتی چتائیں رقص کرتی ہیں
کھڑا ہوں سر اٹھائے یارسول اﷲ، سرِ مقتل
کہ دشتِ روز و شب میں کربلائیں رقص کرتی ہیں
مظفر1؎، خالد2؎، و حافظ3؎، ندیم4؎ وتائب5؎ و مظہر6؎
مری سوچوں میں کتنی ہی ردائیں رقص کرتی ہیں
کرم کی بھیک کا طالب ریاضِؔ بے نوا بھی ہے
حضورؐ افلاس کی اب انتہائیں رقص کرتی ہیں
مظفروارثی(1)، عبدالعزیز خالد(2)، حافظ لدھیانوی (3)، احمد ندیم قاسمی(4)، حفیظ تائب (5)، حافظ مظہرالدین (6)