خاکِ طیبہ مرے ہر درد کا درماں ہونا- متاع قلم (2001)
خاکِ طیبہ! مرے ہر درد کا درماں ہونا
حشر کے دن بھی دل و جاں میں گل افشاں ہونا
کتنا دلکش ہے یہ اظہارِ غلامی میرا
گر کے سرکارؐ کے قدموں میں پشیماں ہونا
ایک دیوانے کی معراجِ سفر ہے اتنی
شہرِ طیبہ کے گلی کوچوں میں رقصاں ہونا
عظمتِ آدمِ خاکی کی یہ محکم ہے دلیل
یا نبیؐ، آپؐ کا یہ صاحبِ قرآں ہونا
اس لیے حکم ہوا پھول کھِلائے مٹی
حسنِ سرکارؐ کو تھا نکہتِ ایماں ہونا
چشمِ پر نم میں جلائے ہوئے حیرت کے چراغ
کیا مقدّر شہِ والاؐ کا ہے مہماں ہونا
ہاتھ خالی ہیں بجز بارِ ندامت میرے
وجہِ بخشش ہے مرا بے سر و ساماں ہونا
معتبر اسمِ محمدؐ ہے زمیں ہو کہ فلک
ہر صحیفے کا ضروری ہے یہ عنواں ہونا
ٹوٹ بھی جا مرے پندارِ شکستہ امشب
اُنؐ کی دہلیز پہ تو ریگِ پریشاں ہونا
یہ تو معمول سا ہے روزِ ازل سے اب تک
چوم کر نقشِ قدم شب کا درخشاں ہونا
میرے آقاؐ، مرے والیؐ، مری نسلوں کے رسولؐ
آپؐ کو زیب ہے کونین کا سلطاں ہونا
پھر صبا لائے گی پروانہ حضوری کا ریاضؔ
بے سبب تو نہیں آنگن میں چراغاں ہونا