اگر ممکن ہو قلب و جاں کو قرطاس و قلم کرنا- کشکول آرزو (2002)
اگر ممکن ہو قلب ہو جاں کو قرطاس و قلم کرنا
ثنائے مصطفیٰؐ کو اپنے اشکوں سے رقم کرنا
رہے ہیں عمر بھر مصروف اس کا رِ محبت میں
جمالِ گنبدِ خضرا کو ہر دھڑکن میں ضم کرنا
کسی بھی امتحان کے میں نہیں لائق نکما ہوں
مرے آقاؐ! کرم کرنا، کرم کرنا، کرم کرنا
کوئی کانٹے چنے یا پھول یہ اُس کا مقدر ہے
نہیں ممکن مقامِ مصطفیٰؐ کو بیش و کم کرنا
دستارِ فضیلت اس جہاں میں دی ہے تو مولا!
بیاضِ نعت کو محشر کے دن بھی محترم کرنا
اب اس سے بڑھ کے بھی بخشش کا ساماں اور کیا ہو گا
ڈھلے جب شام تو پچھلے پہر آنکھوں کو نم کرنا
مری قسمت میں لکھ دے کاتبِ تقدیر شادابی
مری مٹی کو بھی گردِ رہِ شاہِ اممؐ کرنا
کتابِ زندگی کے ہر ورق پر اے دلِ مضطر!
ستارے چن کے پلکوں سے ثنا اُنؐ کی رقم کرنا
ریاضؔ اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں بزم ہستی میں
اساسِ دیں ہے تعظیمِ رسولِ محتشمؐ کرنا