حریمِ جاں میں فراق کا ایک موسم- کشکول آرزو (2002)
ہوائے شہرِ مدینہ کے ذکرِ اطہر سے
عجیب رُت ہے مضافاتِ دیدہ و دل کی
عجیب کیف سا طاری ہے حرفِ مدحت پر
دھنک کے رنگ کھِلے ہیں ہوا کے دامن میں
صبا بھی رقص میں آ کر پیام دیتی ہے
زباں کہ ڈوبی ہوئی ہے وفا کے نشے میں
ڈھلے ہوئے ہیں مری چشمِ تر سے لوح و قلم
حروف کر کے وضو دست بستہ حاضر ہیں
ورق پہ ہونے لگا ہے نزول کرنوں کا
حریمِ جاں میں تھا ہجر و فراق کا موسم
حریمِ جاں میں ہے ہجر و فراق کا موسم
غبارِ چشمِ فغاں میں ہے جگنؤوں کی قطار
عروسِ شب کی کہانی سنو! ہواؤں سے
کہ کیسے پچھلے پہر دل اذان دیتا ہے
کہ کیسے طشتِ تمنّا میں پھول کھِلتے ہیں
کہ کیسے کشتِ دعا میں اترتی ہے شبنم
کہ کیسے وجد میں آتے ہیں میرے نطق و بیاں
جوارِ گنبدِ خضرا میں کس طرح آنکھیں
غبارِ راہِ گزر سے کلام کرتی ہیں
جمالِ گنبدِ خضرا کا عکس، عکسِ جمیل
ہے رشکِ عرشِ معلیٰ حضورؐ کی چوکھٹ
مَیں آج چشمِ تصور میں تھام لوں دامن
قدومِ پاک پہ گر کر کہوں مرے آقاؐ
ہے زخم زخم مناظر میں آپؐ کی امّت
جلا کے سارے اثاثے کھڑی ہے راہوں میں
حصارِ خوف مسلّط ہے آبگینوں پر
یقیں کی دولتِ بیدار ہے تہی دامن
اداس، خوف زدہ دشمنوں کے نرغے میں
حضورؐ، والیٔ کون و مکاں دہائی ہے
ہے میرا عصر مصائب کی دھوپ چھاؤں میں
حدیثِ عشق ہے اوراقِ آرزو پہ رقم
مَیں ایک شاعرِ گمنام و بے نوا و صدا
تلاشِ نقشِ قدم میں حضورؐ نکلا ہوں
برہنہ سر ہوں ہواؤں کے گھر میں رہتا ہوں