یوں ہی رواں دواں مری آنکھوں کا نم رہے- کشکول آرزو (2002)
یُوں ہی رواں دواں مری آنکھوں کا نم رہے
اوراقِ جاں پہ سجدے میں میرا قلم رہے
آقاؐ فقط ہے آپؐ کا در منزلِ مراد
پیشِ نظر حضورؐ کا نقشِ قدم رہے
اس گھر کے ہر مکیں کو ملے آگہی کا نور
محشر تلک حضورؐ کرم ہی کرم رہے
تنہا کھڑا ہوں زر کی تمازت میں آج بھی
آقاؐ غریبِ شہر کا قائم بھرم رہے
امشب بھی شہرِ خواب میں جاگیں مرے نصیب
امشب بھی چشمِ تر میں جمالِ حرم رہے
فیضان ہے یہ نعتِ رسولِ کریمؐ کا
ہر محفلِ درود میں ہم محترم رہے
ارضِ بدن پہ اُن کے کرم کا ہے سائباں
ممکن نہیں کہ سایۂ دیوارِ غم رہے
سرشاریٔ ولائے نبیؐ کے کھُلیں علَم
شام و سحر چمن میں یہی کیف و کم رہے
لکھتے رہیں ثنائے جنابِ شہِ اممؐ
جب تک ریاضؔ آپ کے سینے میں دم رہے