تمنائے حضوری- تمنائے حضوری (2000)

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حکمت و دانش و برہان کا مکتب ہوتا
مجھ کو بھی صبحِ ازل تیرے خزانے سے عطا
حرفِ دانائی کی تفہیم کا منصب ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
پرچمِ حمد مرے عجز کی چھایا ہوتا
میری ہر سانس ترے نام کی مالا جپتی
ذکر تیرا ہی فضاؤں میں خدایا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تیرے بے انت کرم کا میں ذخیرہ ہوتا
یا پسِ کرب مَیں آسودہ سی ہوتا ساعت
یا شبِ غم کے سمندر میں جزیرہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تقویٰ و علم و عمل میرا خزینہ ہوتا
میں ترے بندوں میں تقسیم شعاعیں کرتا
رزق اور عدل کی مالا کا نگینہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تیرے تذکارِ جلیلہ کی مَیں ابجد ہوتا
سجدہ ریزی مرے ماتھے پہ بناتی سورج
نقشِ دیوارِ غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تیری خوشنودی شب و روز کا زیور ہوتا
میرے ہر فعل کا عنوان رضا ہوتی تِری
سجدہء شکر مری ذات کے اندر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
سیدہ آمنہؓ کی باندی کی باندی ہوتا
احترامًا مَیں نگاہیں نہ اٹھاتا اپنی
اُن کی پاپوش سے لپٹی ہوئی مٹی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺکی آمد کی خبر کا میں تراشہ ہوتا
اک یہودی کی گواہی کی مَیں ہوتا سطریں
صبح میلاد مَیں مکے میں بھی گونجا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آمدِ صبحِ بہاراں کا مَیں منظر ہوتا
دھوم مچتی کہ یتیموں کے وہ آئے والی
میرے اندر کا بھی ہر گوشہ منور ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
جشنِ میلادِ پیمبر ﷺ کا مہینہ ہوتا
یا مدینے میں شجر کاری کا ہوتا موسم
یا مدینے میں زرِ خاکِ مدینہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بو لہب کی مَیں وہ اک لونڈی ثویبہ ہوتا
جشنِ میلاد کے صدقے میں رہائی ملتی
جشنِ میلاد کی تاریخ کا حصہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں حلیمہ کے مقدر کا ستارا ہوتا
اپنی آغوش میں جس وقت وہ اُن ﷺکو لیتی
مَیں نے اس لمحے کو آنکھوں میں اتارا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
وادیء سعد کا خوش بخت قبیلہ ہوتا
موسمِ لالہ و گل مجھ کو پڑاؤ کرتے
سب وسیلوں سے بڑا میرا وسیلہ ہوتا

مجھ کو ہونا اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں حلیمہ کی وہ تاریک سی کٹیا ہوتا
جس میں سرکارﷺکو اکثر وہ لٹایا کرتی
جس میں سرکارﷺکے آنے سے اجالا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺکے بچپن کا کوئی ایک حوالہ ہوتا
یا حلیمہ کی سواری کا میں ہوتا چارا
یا حلیمہ کے مَیں ریوڑ کا گوالا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
چاند بن کر سرِ افلاک مَیں روشن ہوتا
رقص کرتا میں اشاروں پہ بلائیں لے کر
پیش منظر مرے آقا ﷺکا لڑکپن ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خوشبوئے خلدِ تمنا کی مَیں بانہیں ہوتا
ننھے آقا ﷺکے مَیں تلووں سے مسلتا ان کو
شہرِ مکہ کے دریچوں کی مَیں آنکھیں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺکے بچپن میں قدم بوسی کا حیلہ ہوتا
پاؤں رکھ رکھ کے گھروندے وہ بنایا کرتے
میں خنک ریت کا بے نام سا ٹیلہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
پر فشاں سعد کی وادی میں مَیں ہر سو ہوتا
مسکرا کر جسے مٹھی میں چھپا لیتے حضور ﷺ
جھاڑیوں میں وہ چمکتا ہوا جگنو ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں ہواؤں کی گزرگاہوں کا نقشہ ہوتا
جو سفر میں سرِ سرکارﷺپہ کرتا سایہ
یا خدا! میں کبھی بادل کا وہ ٹکڑا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
کشتِ اظہار کا سر سبز میں پودا ہوتا
حرفِ نوفل کی صداقت کا مَیں ہوتا شاہد
اور خیالات و مناجاتِ بحیرا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
کوہِ فاران کی چوٹی کا نظارہ ہوتا
اور خورشیدِ رسالت کو سلامی دیتا
میں کہ اکناف میں اک نور کا دھارا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نطق کی عجز بیانی کا مَیں مظہر ہوتا
کلمہ پڑھ کر جو صداقت کی گواہی دیتے
دستِ اقدس کے وہ خوش بخت مَیں پتھر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
سنگِ اسود کی مَیں تنصیب کا شاہد ہوتا
اُن ﷺکے انصاف و مساوات کی دھومیں مچتیں
اور مَیں معبدِ توحید کا زاہد ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میرا اسلوبِ وفا یوں نہ فسانہ ہوتا
اپنے لمحاتِ منور کو لٹاتا اُنﷺپر
مُطّلِب اور ابو طالب کا زمانہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
راز ہوتا لبِ اصحاب میں مضمر ہوتا
مَیں حدیثِ دلِ مضطر کی بھی کرتا شرحیں
عشق کا پہلا سبق مجھ کو بھی ازبَر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
صرف سرکار ﷺ کا اک نام ہی کافی ہوتا
آل و اصحاب پہ ہر روز مَیں لکھتا کالم
نبوی عہد کا خوش بخت صحافی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
سر بکف جیشِ وفا کیش میں شامل ہوتا
میرے ہاتھوں میں بھی زنجیرِ غلامی ہوتی
عشق زنجیر کے ہر حلقے میں داخل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حجلہء جسم میں ایماں کی حرارت ہوتا
خوشدلی سے مَیں اٹھا لیتا مصائب کے پہاڑ
حَبَشَہ میں مَیں پیمبر ﷺ کی سفارت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ طائف میں روئی بن کے مَیں برسا ہوتا
سنگ جو آتے مرے سینے پہ آ کر لگتے
ڈھال بن کر سرِ بازار میں نکلا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ارضِ طائف کے چمن زار کا مالی ہوتا
خدمتِ سیدِ عالم ﷺ میں مَیں حاضر ہو کر
عفو و رحمت کے تسلسل کا سوالی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
جس پہ سوئے تھے علیؓ مَیں وہی بستر ہوتا
چشمِ اعدا میں اتر جاتا سیاہی بن کر
دستِ اقدس کے وہ خوش بخت مَیں کنکر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
جس سے وہ ﷺ ٹیک لگاتے تھے وہ لکڑی ہوتا
بَن کے جالا میں چھپا لیتا نگاہوں سے انہیں
ثور کے غارِ مقدّس کی مَیں مکڑی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں شبِ ہجرتِ سرکار ﷺ کی لاٹھی ہوتا
سانپ ڈس لیتا جسے غار کی تاریکی میں
مَیں وہ صدیقِ وفا دارؓ کی ایڑی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
وقتِ ہجرت مَیں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا
اُن ﷺ کے قدموں میں لٹا دیتا مَیں ساری ٹھنڈک
امِ معبد کے پڑاؤ پہ بھی چھایا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
دشتِ پر ہول کا مَیں خاص وہ حصہ ہوتا
جو جکڑ لیتا سراقہ کی سواری کے قدم
تپتے صحراؤں میں مخمل کا مَیں رستہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بعد پابوسی کے مصروفِ زیارت ہوتا
ہر قدم پر مَیں بچھا دیتا نگاہیں اپنی
مَیں کہ یثرب سے قبا تک کی مسافت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں ابو بکرؓ کے سائے کا بھی سایہ ہوتا
ایک اک لمحہ رفاقت میں گزرتا میرا
کیف و مستی کی مَیں مضراب کا نغمہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ہر قدم کوثر و تسنیم کا چشمہ ہوتا
اُن ﷺ کے قدموں سے لپٹ جاتا بوقتِ ہجرت
ریگِ صحرا کا چمکتا ہوا ذرّہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آمدِ سرورِ عالم ﷺ کا پیامی ہوتا
اپنی ہمجولیوں کے ساتھ مَیں گاتا نغمے
بنو نجار کی خوش بخت میں بچی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حرفِ توقیر کا انمول خزانہ ہوتا
بعدِ ہجرت مجھے صدیوں کی امامت ملتی
عظمت و شوکت و رفعت کا زمانہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں پیمبر ﷺ کے عساکر کا سپاہی ہوتا
نقدِ جاں آپ ﷺ کے قدموں پہ نچھاور کرتا
اس طرح اُن ﷺ کی صداقت کی گواہی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
معبدِ عشق میں انوار کا حامل ہوتا
گردِ پا ہونے کا اعزاز مجھے بھی ملتا
لشکرِ سرورِ کونین ﷺ میں شامل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اک نیا بابِ وفا خون سے لکھا ہوتا
حکمِ سرکار ﷺ بجا لاتا بصد عجز و نیاز
جیشِ پیغمبرِ آخر ﷺ کا مَیں دستہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حضرتِ حمزہؓ کے جذبات کی گرمی ہوتا
مَشعلِ خونِ شہیداں مرا پرچم ہوتی
عشق والوں کی مَیں گفتار کی نرمی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں کہ عثمانؓ کی دولت کا وہ سکّہ ہوتا
خلعتِ عشقِ نبی ﷺ جس سے خریدی جاتی
جاں نثاری کے نئے باب کا صفحہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آمدِ مکّہ کے ہر لمحے کو چوما ہوتا
بت گرے ٹوٹ کے قدمینِ نبی ﷺ پر جس وقت
مَیں نے اُس منظرِ دلکش کو بھی دیکھا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
گھاس پر پھیلا ہوا تختہء شبنم ہوتا
آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب جہاں بھی جاتے
مَیں اسی راہ گزر میں بچھا ریشم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
فتحِ مکہ کی گواہی کا وثیقہ ہوتا
خوں کے پیاسوں میں وہ تقسیم قبائیں کرتے
اسی تاریخ کے ادوار کا لمحہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ہاتھ میں سوت کی انٹی کا خزانہ ہوتا
جس کو آقا ﷺ کی قدمبوسی کی عزت ملتی
مَیں ابو بکرؓ کے گھر کا وہ اثاثہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں ابو ذرؓ کے تفکر کا سویرا ہوتا
رہنما ہوتی مری رسمِ اویسِ قرنیؓ
یا مَیں پھر عشقِ بلالیؓ کا پھریرا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
چومتا اُن ﷺ کے قدم، مَیں درِ ارقم ہوتا
نسبتِ ذاتِ پیمبر ﷺ کی سعادت ملتی
کاسہء عشقِ نبی ﷺ کا زرِ محکم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اپنے آقا ﷺ کے غلاموں کا مَیں چاکر ہوتا
ذاتِ سرکار ﷺ ہی بنیادِ مراسم ہوتی
اُن ﷺ کے اعدا کے لئے برق کا پیکر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عشقِ فاروقِ معظمؓ کا مَیں چہرہ ہوتا
غیرتِ دینی کو پہچان بناتا اپنی
مشرکوں کے لئے اک تیغِ برہنہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ بطحا کے میں دامن کی ہوائیں ہوتا
بجلیاں کوندتی رہتیں مرے اندر اکثر
میں وہ اصحابِ محمد ﷺ کی دعائیں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عجز و ایثار کے احساس کا پیکر ہوتا
جسمِ اطہر کے پسینے کو سلامی دیتا
دوشِ پیغمبرِ آخر ﷺ کی مَیں چادر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عہدِ سرکارِ دوعالم ﷺ کا مَیں سکّہ ہوتا
یا مَیں طیبہ کے گلی کوچوں کی ہوتا رونق
یا مَیں طیبہ کے حسیں بچوں کا لہجہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن کے نعلینِ مبارک سے مصوّر ہوتا
میر و سلطاں مرے کشکول کا صدقہ لیتے
میں اگر شہرِ پیمبر ﷺ کا گداگر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ساعتِ اذنِ حضوری کا مَیں دامن ہوتا
تشنگی اکتی مرے ہونٹوں کے صحراؤں میں
مَیں کہ حسنین کے قدمَین کا دھوون ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ سرکار کا مَیں ایک بھکاری ہوتا
یا مدینے کے در و بام کا ہوتا پتھر
یا مدینے کے مکینوں کی سواری ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ طیبہ کے مسافر کا مَیں مسکن ہوتا
میرے ہاتھوں میں ھی سورج سے چمکے رہتے
اُن کے مہمانوں کے پیروں کی مَیں اترن ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں مدینے کے گلی کوچوں کا منگتا ہوتا
یا مَیں شبنم کا سلگتا ہوا قطرہ ہوتا
یا مَیں خوشبو کا لپکتا ہوا جھونکا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن کی چوکھٹ پہ بچھا ایک بچھونا ہوتا
دست بوسی سے کبھی مجھ کو نہ فرصت ملتی
شہرِ سرکار ﷺ کے بچوں کا کھلونا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مکتبِ بطحا کے بچوں کا مَیں ساتھی ہوتا
جس کے پَر اپنی کتابوں میں سجائے جاتے
خلدِ طیبہ کی وہ رنگین سی تتلی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں کھجوروں کے درختوں کا ذخیرہ ہوتا
میری ہر شاخ کھجوروں کی اٹھاتی چھاگل
مسجدِ نبوی کی دہلیز سے لپٹا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
جاں نثارانِ محمد ﷺ کا مَیں پرچم ہوتا
اُن کے اوصافِ حمیدہ سے جلاتا مَیں چراغ
اُن کے افکارِ جدیدہ کا مَیں کالم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
وادیٔ عشقِ پیمبر ﷺ کا ہمالہ ہوتا
میری عظمت کی ستارے بھی گواہی دیتے
اُن ﷺ کا ہر نقشِ قدم چومنے والا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
دشتِ طیبہ میں بھٹکتا ہوا آہو ہوتا
گنبدِ سبز کا ہر عکس ہے روشن جس میں
مَیں اسی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خاتمِ عشقِ رسالت کا نگینہ ہوتا
میرے عرشے پہ چلا کرتے سفیرانِ نبی
ساحلِ شہرِ محمد ﷺ کا سفینہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
دوسرے رستے پہ چلنے سے بھی قاصر ہوتا
عمر بھر رختِ سفر کھولنا پڑتا نہ مجھے
مَیں ازل ہی سے مدینے کا مسافر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شاخِ جذباتِ عقیدت پہ بسیرا ہوتا
رات بھر اشکِ مسلسل کے بناتا گجرے
شہر ِمدحت کا مَیں خوش رنگ سویرا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ طیبہ کے سمن زاروں کا مالی ہوتا
عمر بھر پودے لگاتا مَیں ثنا خوانی کے
حشر میں چادرِ رحمت کا سوالی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بس مَیں جاروب کشِ شہرِ پیمبر ﷺ ہوتا
اپنی پلکوں کے چراغوں سے سجاتا راہیں
دن نکل آتا تو مَیں صبح کا منظر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نور کے پھولوں کی مَیں ایک کیاری ہوتا
ایک اک شاخ پہ شبنم کے پروتا موتی
گلشنِ طیبہ کی مَیں بادِ بہاری ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شاخِ احساس پہ مہکا ہوا غنچہ ہوتا
خلدِ طیبہ کے سمن زاروں کی ہوتا خوشبو
رنگ اور نور کا بہتا ہوا دریا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خیمۂ جاں کی طنابوں کی مَیں سختی ہوتا
میرے چہرے پہ لکیروں کا بناتے جنگل
شہرِ پاکیزہ کے بچوں کی مَیں تختی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
معبدِ عشقِ اویسیؓ کی مَیں مشعل ہوتا
ہمکلامی در و دیوار سے ہوتی رہتی
خوشبوئے شہرِ گرامی کا مَیں آنچل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
چوم کر نقشِ قدم سروِ چراغاں ہوتا
شہرِ طیبہ کے چمکتے ہوئے ذرّوں کے طفیل
آئنہ خانے میں مَیں عکسِ درخشاں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خلدِ طیبہ کی ہواؤں کا مَیں آنچل ہوتا
یا سلاموں کی مہکتی ہوئی ہوتا ڈالی
یا درودوں سے چھلکتی ہوئی چھاگل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آتشِ شوقِ مسلسل کی مَیں بارش ہوتا
جان قدموں میں لٹا دینے کی ہوتا حسرت
یا مدینے ہی میں مر جانے کی خواہش ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں صبا بن کے مدینے سے روانہ ہوتا
مَیں لبِ اصغرِ معصوم سے ہوتا نہ جدا
کربلا میں مَیں خنک پانی کا چشمہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ورقِ نور پہ طیبہ کا مَیں نقشہ ہوتا
یا پھر اک پیکرِ تصویرِ منور جس میں
صرف سرکار ﷺ کی گلیوں کا سراپا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بارشِ لطف میں مَیں وسعتِ داماں ہوتا
اُن کی دہلیز پہ رکھ دیتا مَیں آثارِ قلم
مرکزِ عشق مدینے کا دبستاں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
منبعِ کوثر و تسنیم کا نقشہ ہوتا
ہر قدم آبِ خنک کی مَیں بچھاتا نہریں
شہرِ سرکار ﷺ کے ہر باسی کا سقّہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں سرِ بزمِ ازل کیف کا عالم ہوتا
گنبدِ سبز کی شادابی سے بھرتا دامن
رات کے پچھلے پہر دیدۂ پُرنم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اپنے باطن کے جھروکوں میں بھی روشن ہوتا
دیکھتا رہتا مَیں حیرت سے سحر کا منظر
شب کی دیوار میں گر آنکھ کا روزن ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں نے سانسوں پہ اسی نام کو لکھا ہوتا
مَیں اسی نام سے تنہائی میں کرتا باتیں
مَیں نے ہر لمحہ اسی نام کو سوچا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عہدِ گم گشتہ کی انمول نشانی ہوتا
ایک اک لمحہ درودوں کی برستی رم جھم
رسمِ اظہارِ غلامی کا مَیں بانی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن کے دربار میں مَیں عجزِ مجسم ہوتا
دست بستہ مَیں کھڑا رہتا درِ اقدس پر
آیتِ عشق کا مَیں حرفِ مکرم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ مکّہ میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا
تیری توحید کا اعلان پیمبر کرتے
تیرے محبوب کے قدموں میں مَیں آیا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آخرِ شب کی دعاؤں کی مَیں مالا ہوتا
میرے ہاتھوں میں بھی جل اٹھتے مؤدت کے چراغ
مَیں بھی تنویرِ شبِ ارضِ تمنا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
احترامِ نبوی عمر کا حاصل ہوتا
ذہن کھو دیتا توازن تو سرِ بزمِ حیات
اُن کی تعظیم سے مَیں پھر بھی نہ غافل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حشر کے روز نہ یوں بے سر و ساماں ہوتا
کاسۂ عشق میں رکھتا مرے اشکوں کا حساب
ہمسفر میرا مرے درد کا درماں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
محفلِ نعت کا سامان مہیا ہوتا
نعت گوئی ہی مری زادِ سفر بن جاتی
حشر میں نعت کا مجھ سے بھی تقاضا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
منتظر حشر تلک میرا گھرانہ ہوتا
ایک دن آئیں گے آقاؐ مرے گھر میں بھی ضرور
اپنی اوقات میں رہتے ہوئے سوچا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عزمِ تازہ کے سفر کی مَیں کہانی ہوتا
وقت تاریخ کے ماتھے پہ سجاتا جھومر
اپنے آبا کی مَیں انمول نشانی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شاخِ مضراب پہ نغموں کا بہاؤ ہوتا
یا مَیں ہر صوت کی تخلیق کا ہوتا لمحہ
یا میں ہر حرف کے باطن کا رچاؤ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
قصرِ ایماں کی فصیلوں کا دریچہ ہوتا
تن پہ ہوتی، مرے، تسلیم و رضا کی چادر
شاخِ ایماں پہ مہکتا ہوا غنچہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آتشِ عشقِ نب ﷺ کا مَیں الاؤ ہوتا
آگ یہ خلد میں بھی سرد نہ ہونے پاتی
بعد مرنے کے بھی اس سمت جھکاؤ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
سامنے میرے فقط نور کا ہالہ ہوتا
سامنے میرے فقط روضے کی رہتی جالی
سامنے میرے فقط گنبدِ خضرا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نعتِ سرکارِ دو عالم ﷺ کی روانی ہوتا
سر اٹھاتا نہ ورق پر سے قلم کی مانند
حرفِ پاکیزہ کی بھرپور جوانی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺ کا ہر نقشِ کفِ پا مری منزل ہوتا
میری فریاد مری نعت کا بنتی پیکر
دشتِ طیبہ کا مَیں اک آہوئے بسمل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
لوحِ احساس پہ جذبات کی بارش ہوتا
پھول رعنائی کے کھلتے مرے شاخوں پہ بہت
میں قلم تھامے ہوئے حرفِ ستائش ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں سرِ متقلِ جاں حرفِ صداقت ہوتا
اُن ﷺ کی تعلیم کے انوار سے بھرتا جھولی
ہر عمل میرا بھی پابندِ شریعت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
آخرِ شب کی دعاؤں کی مَیں حیرت ہوتا
مصر کے شہر میں جب سوت کی انٹی کھلتی
اپنے ہر شکِ ندامت کی مَیں قیمت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا مرے ربِ کریم
زیرِ افلاک صداؤں کا مَیں گنبد ہوتا
نغمہ صلِّ علیٰ گونجتا رہتا مجھ میں
حشر کے دن بھی اسی گھر میں مقید ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اوجِ افلاک پہ ہمدوشِ ثریّا ہوتا
بال و پر ہوتے عطا اُڑنے میں پہلے مجھ کو
اپنی پروازِ مسلسل پہ بھروسہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
صرف اعزازِ غلامی مرا ارماں ہوتا
میں وفاداری کے ہر معنی کا ہوتا مظہر
اُن ﷺ کے دربانوں کے دربانوں کا درباں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عشقِ پیغمبرِ ذی شاں ﷺ کا اثاثہ ہوتا
میرے سامانِ سفر میں مری آنکھیں ہوتیں
میرے کشکولِ دعا میں زرِ عقبیٰ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
موسمِ مدحت و توصیفِ پیمبر ﷺ ہوتا
پرچمِ ابرِ شفاعت کُھلا رہتا مجھ پر
بزمِ امکاں میں اگر عرصہء محشر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
عشق کے سارے مراحل سے مَیں گزرا ہوتا
روشنی ٹوٹ کے گرتی جو مرے آنگن میں
کیف و مستی کی مئے ناب کا جرعہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حبِ سرکارِ دو عالم ﷺ کا میں بھوکا ہوتا
عمر بھر نقشِ کفِ پائے پیمبر ﷺ کے طفیل
عمر بھر پیشِ نظر شہرِ تمنا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
دامنِ حسنِ طلب بھر کے بھی پھیلا ہوتا
مَیں بھی قدموں میں سجا دیتا دل و جاں کے گلاب
مجھ کو بھی لمحہ حضوری کا جو بخشا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
جیب و داماں میں زرِ عشقِ رسالت ہوتا
میرا احساسِ غلامی ہی سرِ روزِ جزا
میرے بچوں کی بھی بخشش کی ضمانت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
یارسول اﷲ ﷺ کا ہونٹوں پہ وظیفہ ہوتا
حشر تک آنکھ مری خشک نہ ہونے پاتی
آئنہء اشک میں بس گنبدِ خضرا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حرفِ طاعت کی مَیں تفہیم کا پیکر ہوتا
مسترد کرتا میں ابہام کی فرسودہ روش
لفظ و معنی کے سمندر کا شناور ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ذاتِ اطہر ہی مرا مرکز و محور ہوتا
خلعتِ ختمِ رسالت ہے اتاری تو نے
بعد آقا ﷺ کے کوئی کیسے پیمبر ﷺ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ساتھ میرے مری بخشش کا بھی ساماں ہوتا
فرد تیار ہے محشر میں جرائم کی مگر
اُن ﷺ کے قدموں سے لپٹ جانے کا امکاں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
قصرِ ایماں کے کسی طاق میں رکھا ہوتا
آئنہ خانے میں ہر عکس سے کرتا باتیں
منحرف چہروں کے جنگل میں نہ اترا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ملکِ توصیف کے میں تخت کا والی ہوتا
نکہتِ لالہ و گل میرا تشخص لکھتی
شاخِ احساس کا ہر پھول مثالی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا مرے ربِ کریم
آلِ سرکار ﷺ کا ادنیٰ سا ملازم ہوتا
میرے بچوں کو غلامی کی عطا ہوتی سند
فرد ہر میرے قبیلے کا بھی منعم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نصب دیوار و در و بام میں تنہا ہوتا
اپنے دامن میں چھپا لیتا میں جلوؤں کے ہجوم
پیش منظر میں فقط آپ ﷺ کا چہرہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
روشنی کی مَیں سرِ شام علامت ہوتا
روزنِ عجز میں رکھ دیتا انا کا پرچم
آنکھ میں ٹھہرا ہوا اشکِ ندامت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
چشمِ حیرت میں تمنا کی تجلی ہوتا
ہجر کی رات کی نمناک سی تاریکی میں
لوحِ احساس پہ میں حرفِ تسلی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
درِ عالی پہ یہ دیوانہ بھی اکثر ہوتا
اپنی زنجیر کو اسنادِ غلامی کہہ کر
دامنِ شہرِ پیمبر ﷺ میں مکرر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
وجدِ کا لمحہ مری روح پہ طاری ہوتا
اُنؐ کے نعلین کے صدقے میں مَیں دریا بن کر
حشر کے روز لبِ تشنہ سے جاری ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺ کے پیغامِ محبت کا میں داعی ہوتا
کلکِ جامی سے مجھے عشق کی ملتی دولت
نعتِ سعدی کی میں دلکش سی رباعی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میرا احساسِ غلامی تر و تازہ ہوتا
خاکِ دہلیزِ پیمبرؐ جو مقدّر ہوتی
صبحِ دلکش کے میں رخساروں کا غازہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
دستِ سائل کا میں کشکولِ گدائی ہوتا
دامنِ ہجر میں کھل اٹھتے حضور کے گلاب
آخربِ شب کی دعاؤں کی کمائی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بارشِ رحمتِ سرکار ﷺ میں جل تھل ہوتا
میری پہچان پہ زنجیرِ غلامی بنتی
میری آنکھوں میں عقیدت کا وہ کاجل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اسی تہذیبِ خداداد کی خوشبو ہوتا
جس نے ہر دور کے انسان کو چہرہ بخشا
مَیں پیمبر ﷺ کی ثقافت کا وہ پہلو ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بحرِ توصیفِ پیمبر ﷺ کا سفینہ ہوتا
یا چمن زارِ ثنا خوانی کی ہوتا شبنم
یا چراغِ شبِ تذکارِ مدینہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حشر تک میرے مقدر کا بھی چرچا ہوتا
میں بھی تاریخ کے اوراق میں رہتا زندہ
شہرِ اقدس کی مَیں دیواروں پہ لکھا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺ کے شاعر کا لقب مجھ کو بھی بخشا ہوتا
لوحِ جاں پھول سے حرفوں سے مہکتی رہتی
معتبر شہرِ ثنا میں مرا لہجہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
لفظ اقراء کے بہت گہرے معانی ہوتا
شوق سے پڑھتے مجھے شہرِ نبی ﷺ کے بچے
جاں نثاری کی مَیں دلچسپ کہانی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
حرفِ اعزازِ سگِ کوئے پیمبر ﷺ ہوتا
اپنے آقا ﷺ کی گلی سے نہ نکلتا باہر
موت کے بعد بھی سرکار ﷺ کے در پر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ایک اک حرف محبت کا عمامہ ہوتا
ہر گھڑی آپ ﷺ کے دربار میں رہتا حاضر
ہاتھ میں شہرِ پیمبر ﷺ کا اقامہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
لفظ بن کر میں بصیریؒ کا قصیدہ ہوتا
کلکِ حسانؓ کی رعنائی کا ہوتا پیکر
اعلیٰ حضرتؒ کا میں پرجوش عقیدہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اسمِ سرکارِ دو عالم ﷺ کا وظیفہ ہوتا
میں لحد کو بھی ثنا خوانی سے کرتا روشن
خلدِ توصیفِ پیمبر ﷺ کا صحیفہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بحرِ انفاس کا گمنام جزیرہ ہوتا
میرے احباب مجھے ڈھونڈتے رہتے لیکن
درِ عالیٰ پہ میں خاموشی سے سویا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺ کی مدحت کا علَم میرا مقدّر ہوتا
امتِ صبر کے آنسو بھی ہیں جن میں شامل
اُن درودوں کا سلاموں کا مَیں لشکر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں مضافاتِ مدینہ کا مقامی ہوتا
قافلے والوں کے قدموں کے مَیں لیتا بوسے
ہاتھ بھی اٹھا ہوا بہرِ سلامی ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں مؤذن کی اذانوں کا ترنم ہوتا
پرچمِ وصفِ نبی ﷺ ہاتھ میں ہوتا میرے
میں سرِ عرش فرشتوں کا تکلم ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خطہء جرم میں بالفعل مسلماں ہوتا
جرعہء عشقِ نبی ﷺ ہاتھ جو آتا میرے
دامنِ قریہء جاں میں بھی چراغاں ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میرا ہر موئے بدن قلب کا مظہر ہوتا
موج در موج درودوں کے جزیرے ملتے
اپنے آقا ﷺ کی غلامی کا سمندر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نطقِ جذبات کا مَیں حسنِ بلاغت ہوتا
میرے ہر حرف میں قندیل ثنا کی جلتی
میرا ہر شعر عبادت کی عبادت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
تا ابد لب پہ مرے اسمِ پیمبرؐ ہوتا
حشر کے روز اُٹھاتے تو لحد میں میری
نعت کے کیف میں ڈوبا ہوا منظر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اَطلسِ بخشش و رحمت کا لبادہ ہوتا
اور بھی پھول مرے باغِ سخن میں کھلتے
یہ کرم نعت کا کچھ اور زیادہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
نعتِ سرکارِ دو عالم ﷺ کا جریدہ ہوتا
اپنے اوراق پہ توصیف کی رکھتا کلیاں
سرورق گنبدِ خضرا سے کشیدہ ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن ﷺ کے دستورِ عمل کی مَیں عبارت ہوتا
اُن ﷺ کے اعمالِ جلیلہ کا مَیں ہوتا مظہر
اُن ﷺ کے اقوالِ جمیلہ کی مَیں ندرت ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
گنبدِ خضرا کا سرسبز میں روغن ہوتا
ایک اک لمحہ حضوری میں گزرتا میرا
رشکِ فردوسِ بریں میرا نشیمن ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
پرچمِ سبز کا میں چاند ستارا ہوتا
یہ وطن میرا وطن اُن ﷺ کے غلاموں کا وطن
سر بکف چلتا مجھے جب بھی پکارا ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
مَیں بھی افکارِ جلیلہ کا تجمل ہوتا
خاکِ طیبہ و نجف کو مَیں بناتا سرمہ
اُن ﷺ کے اقبالؒ کی پروازِ تخیل ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
شہرِ مدحت میں مقدّر کا سکندر ہوتا
اُن ﷺ کی توصیف رقم مجھ سے نہ ہونے پاتی
میں اگر لفظ کا بھی گہرا سمندر ہوتا

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
ہاتھ میں میرے تمناؤں کا کاسہ ہوتا
آبِ کوثر سے کبھی پیاس نہ بجھتی میری
تیرے محبوب کی مَیں دید کا پیاسا ہوتا