حُبِّ ختم المرسلیں ﷺ گھر گھر جلائے گی چراغ- خلد سخن (2009)
حُبِّ ختم المرسلیںؐ گھر گھر جلائے گی چراغ
دیدۂ تر میں ہوا شب بھر جلائے گی چراغ
کیف میں ڈوبے ہوئے لمحات ہیں میرا نصیب
بے خودی میری، مرے اندر جلائے گی چراغ
گنبدِ خضرا کا ہے ہر عکس اس میں موجزن
ساگرِ دل میں غزل اکثر جلائے گی چراغ
آج بھی مشعل درودِ پاک کی روشن ہوئی
آج بھی خوشبو مرے لب پر جلائے گی چراغ
آنسوؤں میں بھیگتا جائے گا ہر حرفِ ثنا
شامِ تنہائی میں چشمِ تر جلائے گی چراغ
پھول برسیں گے شفاعت کے غلاموں پر بہت
اُنؐ کی رحمت جب سرِ محشر جلائے گی چراغ
اِک نہ اِک دن اُنؐ کی چوکھٹ پر پہنچ جاؤں گا مَیں
ہر قدم پر اِک نئی ٹھوکر جلائے گی چراغ
نور سے معمور ہو گی شامِ ہجرِ مصطفیٰؐ
شدتِ جذبات جل جل کر جلائے گی چراغ
میری رودادِ قفس سے یوں نہ کر صرفِ نظر
آرزو میری بھی نامہ بر جلائے گی چراغ
صبحِ نو کو روکنے کی ہو گی یہ سازش کوئی
مقتلِ شب میں قدامت گر جلائے گی چراغ
اُنؐ کے ہر نقشِ کفِ پا سے سحر ہو گی طلوع
کہکشاں شب کی ہتھیلی پر جلائے گی چراغ
اُمتِ مظلوم کے خیمے نہیں روشن حضورؐ
کیا سپاہِ شب پسِ لشکر جلائے گی چراغ
محفلِ میلاد بچوں نے سجائی ہے، ریاضؔ
آسماں سے چاندنی آ کر جلائے گی چراغ