ازل سے میرے پیمبر ﷺ کا ہے دیا روشن- خلد سخن (2009)

ازل سے میرے پیمبرؐ کا ہے دیا روشن
اِسی سے چاند ستاروں کی ہے قبا روشن

مرے حضورؐ کا ہر معجزہ بھی زندہ ہے
اُفق اُفق پہ ابد تک ہے ہر ادا روشن

ورق ورق پہ ہے خورشیدِ صبح نو کا جمال
یہ میرے لفظ ہیں سب بہرِ مصطفیٰؐ روشن

ملی ہے آج بھی خیرات اُنؐ کے قدموں کی
رہیں لحد میں بھی اُنؐ کے نقوشِ پا روشن

اُمڈ رہی ہیں حوادث کی آندھیاں آقاؐ!
غبارِ جاں میں ہے اِک شہرِ التجا روشن

چمن میں اُترے ہیں شاداب موسموں کے ہجوم
ہوئی ہے شاخِ تمنا پہ بھی ہوا روشن

شبِ جمود میں اُنؐ کے ہر اِک نفس کے طفیل
یقین و عزم کی مشعل کرے خدا روشن

حصارِ شامِ ملامت کے گھپ اندھیروں میں
چراغِ نسبتِ نعت نبیؐ رہا روشن

دیارِ عشق سے باہر قدم نہ تم رکھنا
رہے غلامی کا ہر ایک دائرہ روشن

مرے نبیؐ کے کرم سے رہے گا محشر تک
شبِ قفس میں مقدّر کا حاشیہ روشن

صدا سے پہلے ملے گا اسی لیے تو ریاضؔ
نہیں ہے لب پہ مرے حرفِ مدعا روشن