دہلیزِ مصطفےٰ ﷺ پہ تھی یہ در بدر نہ تھی- خلد سخن (2009)
دہلیزِ مصطفیٰؐ پہ تھی یہ دربدر نہ تھی
میری دعائے نیم شبی بے اثر نہ تھی
کس وقت مجھ کو نقشِ قدم کی نہ تھی تلاش
کس وقت میرے سامنے وہ رہگذر نہ تھی
کس وقت سر پہ اُنؐ کے کرم کا نہ تھا سحاب
کس وقت ہمرکاب شمیمِ سحر نہ تھی
جیسے درِ حضورؐ پہ صدیاں گزر گئیں
وہ حاضری کی شام مری مختصر نہ تھی
کھلنے سے قبل، پھول سے کہتا کہ پڑھ درود
تتلی مرے وجود کی ہر شاخ پر نہ تھی
جب تک عدم سے ہستی میں آئے نہ تھے رسولؐ
دنیائے ہست و بود بھی کچھ معتبر نہ تھی
ممکن نہ تھا کہ زیست میں کھلتے ثنا کے پھول
روزِ الست نعت لبوں پہ اگر نہ تھی
وہ ہم سخن ضرور تھا پر ہمسفر نہ تھا
پہچان جس کی مدحت خیر البشرؐ نہ تھی
دامن میں پھول اُنؐ کی شفاعت کے تھے بہت
دامن میں روزِ حشر متاعِ ہنر نہ تھی
ہر سانس کے تھا ہاتھ میں پرچم درود کا
مصروفِ نعت صرف مری چشمِ تر نہ تھی
ہر التماس پر مری بابِ کرم کھلا
کہتا ہوں سچ کہ بادِ صبا نامہ بر نہ تھی
اُڑ کر درِ حضورؐ پہ پہنچی بصد ادب
خاکِ بدن ریاضؔ کی بے بال و پر نہ تھی
تنہا میں کب ریاضؔ تھا راہِ حیات میں
کب رحمتِ حضورؐ شریکِ سفر نہ تھی