مرے ہونٹوں پہ ہیں میرے حروفِ التجا رقصاں- کائنات محو درود ہے (2017)
مرے ہونٹوں پہ ہیں میرے حروفِ التجا رقصاں
ورق پر بن کے تصویرِ ادب، کلکِ ثنا رقصاں
ثنا گوئی کا منصب تُونے بخشا ہے تو پھر مولا!
تخیل کے خلاؤں میں رہیں ارض و سما رقصاں
ہوائے شہرِ طیبہ کے ازل سے منتظر لوگو!
چمن زارِ ادب میں کب سے ہے بادِ صبا رقصاں
وہی ہر علم کے مرکز، وہی ہیں امن کے داعی
اُنہیؐ کا نام لے کر ہے کتابِ ارتقا رقصاں
مجھے کامل یقیں ہے موسمِ مدحت کی رم جھم میں
وفورِ نعت کے لب پر رہے گی انتہا رقصاں
بفیضِ ذکرِ ختم المرسلیںؐ ہر گوشۂ دل میں
حروفِ دلکشا و پرکشا و لب کشا رقصاں
ہتھیلی پر تشکر کے سجا کر ان گنت سکّے
مدینے کے گلی کوچوں میں ہے میری صدا رقصاں
وہ کیا دن تھے حضوری کے، تجلّی ہی تجلّی تھی
تصوّر میں رہا طیبہ کا شہرِ دلربا رقصاں
مدینے میں چنریا اوڑھ کر الطافِ پیہم کی
رہی عجز و نیاز و شوق میں میری انا رقصاں
ریاضؔ خوشنوا رہنا مسلسل رقص میں تُو بھی
گلی میں ہیں کسی پیغامِ بر کے نقشِ پا رقصاں
٭
آقائے محتشمؐ کی گلی کے سوا ریاضؔ
پہچانتا نہیں ہوں کسی کی گلی کو مَیں