فضائے کرب و غم ہے آخرِ شب کی دعائوں میں- کائنات محو درود ہے (2017)
فضائے کرب و غم ہے آخرِ شب کی دعاؤں میں
حضورؐ، امت کے آنسو ہیں مری ان التجاؤں میں
مری بنجر زمینوں کو دلاسہ دیجئے آقاؐ
نہیں پانی کا اک قطرہ سمندر کی ہواؤں میں
قلم میرا بڑی مشکل سے، آقاؐ، سانس لیتا ہے
چلے بادِ صبا میرے سخن کی تنگناؤں میں
یہ ساری روشنی ہے آپؐ کے قدمینِ اقدس کی
ستارے جھلملاتے ہیں ادب کی کہکشاؤں میں
درودِ پاک پڑھ پڑھ کے صبا اِن کے ورق الٹے
کُھلی ہے ہر بیاضِ نعت طیبہ کی فضاؤں میں
اٹھا رکھّے ہیں خوشبو نے چراغِ دیدۂ پرنم
مدینے کی طرف جاتی ہوئی دلکش ہواؤں میں
سخن سارے کا سارا دست بستہ ہے سرِ محفل
ثنا مقبول ہے اتنی غزل کی اپسراؤں میں
نئے آفاق کی تسخیر ہے پہلا ہدف میرا
انہیؐ کے نقشِ پا لیکن ہیں اندر کے خلاؤں میں
مرا پیارا وطن ہی قریۂ عشقِ محمدؐ ہے
رہے یہ تا ابد، یارب! کرم کی انتہاؤں میں
اسے آواز اپنی بھی سنائی دے گی کیا آقاؐ
گھِرا ہے جب بشر تاریک جنگل کی صداؤں میں
حسینی قافلہ شاید مدینے سے نہیں نکلا
یزیدی قوتیں ہیں عصرِ نو کی کربلاؤں میں
ریاضؔ اپنے قلم سے پھول جھڑتے ہیں شبِ آخر
حروفِ نو سمٹ آتے ہیں خوشبو کی رداؤں میں